بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

’’ولاتفرقوا‘‘ کی تفسیر


سوال

 آج کل کچھ سوشل میڈیا سکالرز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب قرآن کی اتنی واضح آیت ہے :وَٱعۡتَصِمُواْ  بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعٗا وَلَا تَفَرَّقُواْۚ تو پھر مسلمانوں نے دین میں تفرقے کیوں بنائے ہیں کوئی کہتا ہے میں دیوبندی ہوں، کوئی کہتا ہے میں بریلوی ہوں، کوئی کہتا ہے میں اہلحدیث ہوں ، کوئی کہتا ہے کہ میں شیعہ ہو اور ہر فرقے کے علیحدہ علیحدہ علماء بھی ہیں ۔ جبکہ میرا تعلق خود بھی مسلک دیوبند سے ہے ۔ براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں کہ جب قرآن میں واضح حکم موجود ہے کہ فرقے بنانا جائز نہیں ہے تو پھر ہم لوگوں نے دین میں فرقے کیوں بنائے ہوئے ہیں ۔ 

جواب

قرآنی آیا ت کا مدعا بھی  یہ ہے کہ امت کو فرقوں میں  نہیں بٹنا چاہیے،ظاہر ہے کہ امت کے بٹنے کا امکا ن تھا  جبہی  تو عدم تفریق کا حکم نازل ہو ا ہے چنانچہ  اس امت میں فرقہ بندی ہو نا خود حضور ﷺ کی زبان اطھر سے بیان ہو ئی ہے  اس لیے امت کا مختلف  فرقوں میں بٹنا  امر واقعی ہے البتہ ان  میں سے راہ حق کا معیار   پیرو کا ر اور طریق نبوی کا متبع  کو ن ہے؟  تو  اس کا معیا ر  خود نبی اکرم ﷺ نے متعین  فرمادیا ہے  وہ معیار یہ ہے: حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ بلا شبہ میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا جیسا بنی اسرائیل پر آیا تھا یعنی    بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے،میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی  اور  ان میں سے 72 فرقے دوزخی ہو ں گے  ان میں سے صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا ، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسو ل اللہ  وہ  جنتی فرقہ کون سا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ  جو   اس راستے پر ہو گا  جو میرا اور میرے صحابہ  کا ہے ، اور اسی ناجی فرقہ کانام  اہل سنت والجماعت ہے اور حضور ﷺ کی سنت کو اپنا نے  والے اور صحابہ کرام رضوا ن اللہ عنھم اجمعین کے طریقے کو لازم پکڑنے والے ہیں ،  اسی طرح ایک حدیث میں رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بڑی جماعت کی پیروی کرو،اسی طرح حضرت   انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس  نے میری سنت کو محبوب رکھا اس نے مجھ کو محبوب رکھا جس نے مجھ کو محبوب رکھا تو  وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ، لہذا اس  سے معلوم ہو اکہ اس امت میں فرقے پیدا ہوں مگر ایک  ہی فرقہ ناجی ہو گا، لہذا یہ دیکھا جائے جو  فرقہ حضور ﷺ کے راستے پر اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے راستے  پر ہے  افراط اور تفریط کا شکار نہ  ہو ، سنت کا پیرو کا ر ہو ، بدعت کا مرتکب نہ وہ ہی حق پر ہیں اور  ان ہی کی اتباع کی جائے ،  جو ا س  پر پو را اتر رہا ہو  وہ فرقہ صحیح ہے  باقی غلط ہیں ،اگر   انصاف سے جائز ہ لیا جائے تو اس معیار  پر  علمائے دیوبند  اور ان کے پیرو کار  پورے اتر  تے ہیں ، اور ہمارے ممالک میں علماء دیوبند ہی اہل سنت والجماعت کے ترجمان ہیں۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے :

"وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ"

(کتاب الإیمان، باب الاعتصام والسنة،الفصل الثاني،61/1،ط: المكتب الإسلامي)

مشكوة المصابيح  میں ہے:

"وَعَن أنس قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا بُنَيَّ إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تصبح وتمسي لَيْسَ فِي قَلْبِكَ غِشٌّ لِأَحَدٍ فَافْعَلْ» ثُمَّ قَالَ: «يَا بني وَذَلِكَ من ‌سنتي وَمن أَحْيَا ‌سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجنَّة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ"

(کتاب الإیمان، باب الاعتصام والسنة،الفصل الثاني،62/1،ط: المكتب الإسلامي)

سنن ابن ماجہ ميں ہے :

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلَامِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الْأَعْمَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ أُمَّتِي لَا تَجْتَمِعُ عَلَى ‌ضَلَالَةٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ».

(كتاب الفتن، باب سواد الأعظم،1303/2،دار إحياء الكتب العربية)

سنن ابن ماجہ ميں ہے :

"وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا، ‌فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»"

(کتاب الفتن ، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدین المھدیین،15/1،دار إحياء الكتب العربية)

واضح رہے کہ فرقہ کا تعلق عقائد سے ہے، مسائل سے نہیں، اور مسائل میں جو اختلاف ہوتا ہے اس سے فرقہ نہیں بنتا مسلک بنتا ہے، اس لیے ائمۂ اربعہ میں اختلاف ہے، اس کو فرقہ واریت نہیں کہتے اس کو مسلک کا اختلاف کہتے ہیں اور مسلک کے اختلاف پر وعید نہیں ہے۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503101054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں