بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے ترکے سے اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد بیٹی کا دوبارہ موجودہ قیمت کے اعتبار سے اپنے حصے کےمطالبے کا حکم


سوال

میرے والد کا انتقال1995ء میں ہوا، ورثاء میں اس وقت بیوہ  ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں حیات تھیں، اس کے بعد 2010ء میں والدہ کا انتقال ہوگیا ، اس وقت تک والد کی جائیداد تقسیم نہیں کی گئی تھی ، ہم نے دارالافتاء سے فتوی لیا ،جس میں ہم بھائیوں کے دو ،دو حصے اور ہر ایک بہن کا ایک ایک حصہ لکھا تھا، ہم نے اس وقت اپنی بہنوں کو ان کے حصے سے کچھ زیادہ زیورات اور نقدی میں سے دے دیا ، صرف بھائیوں کا حصہ باقی رہ گیا تھا ،والد کی جائیداد میں جو گھر ہے ،اب ہم اسے نام پر منتقل کرنا چاہ رہے ہیں ،تمام بہن بھائیوں نے اس پر دستخط کردیے، لیکن ایک بہن کہہ رہی ہے کہ مجھے میرا حصہ آج کے حساب سے دو، جب کہ تینوں بہنوں کو تقسیم کے وقت ہم ان کا جو حصہ بنتا تھا دے چکے ہیں ۔

اب آپ سے سوال یہ ہے کہ :

بہن کا حصے لینے کے باوجود آج کی قیمت کے اعتبار سے دوبارہ حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟

اب اگرہم آج کے اعتبار سے اسے حصہ دیں تو جو حصہ وہ پہلے لے چکی ہے اس کا کیا حکم ہوگا؟

معاہدہ نامہ اور اقرار نامہ ساتھ منسلک ہے ۔

وضاحت:والدہ کے ترکہ کے زیورات اور والد کے ترکہ کے مکان کے مجموعی رقم سے جو حصہ بہنوں کا بنتا تھا، ان کی رضامندی سے زیورات میں سے انہیں حصہ ادا کردیااور مکان ہم بھائیوں نے بغیر تقسیم کیے اپنے حصے میں رکھ لیا۔ 

جواب

۲،۱۔صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل اور ان کے بھائیوں  نے باہمی رضامندی سے والدین کے مجموعی ترکہ یعنی والدہ کے زیورات  اور والد کے مکان سمیت کل ترکہ ملا کر جو مجموعی رقم اس وقت کے حساب سے بنتی تھی ،اس میں سے اپنی بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے کچھ زیادہ زیورات کی صورت میں دے دیا تھا اور بہنوں نے بھی اس پر  قبضہ کرتے ہوئے اپنا حصہ وصول کر لیا تھا تو اس صورت میں مذکورہ بہن کے لیے اپنا شرعی حصہ لینے کے با وجود دوبارہ موجودہ  قیمت کے اعتبار سے اپنے حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً ناجائز ہے،مذکورہ مکان میں صرف تینوں بھائیوں کا حصہ ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلالية وجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، وكذا لو أنكروا إرثه لأنه حينئذ ليس ببدل بل لقطع المنازعة۔

وفي الرد: (قوله: أكثر من حصته) فإن لم يعلم قدر نصيبه من ذلك الجنس، فالصحيح أن الشك إن كان في وجود ذلك في التركة جاز الصلح، وإن علم وجود ذلك في التركة لكن لا يدري أن بدل الصلح من حصتها أقل أو أكثر أو مثله فسد بحر عن الخانية۔‘‘

(کتاب الصلح ، فصل فی التخارج، ج:۵،ص:۶۴۲،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں