بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل موکل کی مخالف کرنا، بازاری گوشت خریدنے کا حکم


سوال

1۔ایک مرتبہ گھر والوں نے مجھ سے سرسوں کاتیل منگوایا تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ گھر والوں نےسرسوں کا تیل مانگا ہے، میں بادام والا تیل لے آیا، کیا یہ خرید و فروخت درست ہوا؟

2۔اگر کسی نے تربوز والے سے کہا کہ یہ تربوز لال  نکلا تو خریدوں  گا ورنہ نہیں، کیا اس طرح سودا کرنا درست ہے؟

3۔عام طور پر مرغی  گوشت وغیرہ دکانوں پر "بابا فرید" جیسا کچھ لکھا ہوتا ہے، جیسے " الصلوٰۃ  یا یا علی مدد" تو ان دکانوں سے گوشت خریدنا کیسا ہے؟اور عام طور پر مرغی گائے کے گوشت والے دین سے بہت دور ہوتے ہیں امید نہیں ہوتی کہ "بسم اللہ" پڑھتے ہوں گے ۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب دکاندار سے بادام کا تیل خریدا ہے، تو یہ خرید فروخت درست ہوئی ہے ،البتہ یہ معاملہ سائل ہی پر لازم ہے، گھر والوں پر نہیں یعنی اس کی قیمت سائل ہی نے دینی ہے، گھر والوں سے رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا،الایہ کہ گھر والے اسی کوقبول کرلیں۔

2۔ صورتِ مسئولہ میں بیچنے والےاور خریدار کی  باہمی رضامندی سے تربوز یا کسی بھی پھل کا اس طرح سودا کرنا کہ    اگر پھل صحیح  اور  شرائط  کے مطابق ہوگا تو خریدار خریدے گا، ورنہ نہیں خریدے گا،  اس طرح سودا کرنا جائز  ہے۔

3۔واضح رہے کہ اسلامی مملکت میں غالب یہی کہ گوشت بیچنے والے نے  بسم اللہ پڑھ کر ہی جانور ذبح کیا ہوگا، لہٰذا ایسی صورت میں کسی قسم شک و شبہ کیے بغیر گوشت خرید لینا چاہیے، البتہ جس دکان دار کے بارے میں یہ  یقین یا غالب گمان  ہو کہ وہ قصداً بسم اللہ پڑھے بغیر جانور ذبح کرتا ہے تو اس سے گوشت خریدنا جائز نہیں۔باقی کسی دکان پر ''بابا فرید''یاالصلوۃ'' یا''یاعلی'' وغیرہ لکھا ہوتوایسی کسی  تحریر کی وجہ سے ایسے دکاندار سے خریدوفروخت ناجائز نہیں ہوتی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"التوكيل بالشراء إذا كان مقيدا يراعى فيه القيد إجماعا، سواء كان القيد راجعا إلى المشترى أو إلى الثمن، حتى إنه إذا خالف يلزمه الشراء إلا أنه إذا كان خلافا إلى خير فيلزم الموكل

الوكيل إذا خالف من حيث الجنس لا ينفذ على الآمر، وإن كان المأتي به أنفع من المأمور به كما إذا أمره أن يبيع عبده بألف درهم فباعه بألف دينار، وإن كان من حيث الوصف أو القدر إن كان المأتي أنفع ينفذ على الآمر، كما إذا أمره أن يبيع عبده بألف درهم فباعه بألف وخمسمائة، وإن كان أضر لا ينفذ على الآمر، كما إذا أمره أن يبيع عبده بألف درهم فباعه بتسعمائة درهم هكذا في المحيط۔"

(كتاب الوكالة، الباب الثاني في التوكيل بالشراء، ج:3، ص:575/574، ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"الوكيل إذا خالف، إن خلافا إلى خير في الجنس كبع بألف درهم فباعه بألف ومائة نفذ، ولو بمائة دينار لا، ولو خيرا خلاصة ودرر۔"

(‌‌كتاب الوكالة، ‌‌باب الوكالة بالبيع والشراء، ج:5، ص:521، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"شرى نحو بيض وبطيخ) كجوز وقثاء (فكسره فوجده فاسدا ينتفع به) ولو علفا للدواب (فله) إن لم يتناول منه شيئا بعد علمه بعيبه (نقصانه) إلا إذا رضي البائع به، ولو علم بعيبه قبل كسره فله رده 

وفی الرد:(قوله فوجده فاسدا إلخ) لو قال فوجده معيبا لكان أولى؛ لأن من عيب الجوز قلة لبه وسواده كما في البزازية، وصرح في الذخيرة بأنه عيب لا فساد واحترز بقوله فوجده أي المبيع عما إذا كسر البعض فوجده فاسدا فإنه يرده أو يرجع بنقصه فقط ولا يقيس الباقي عليه

(قوله نقصانه) أي له نقصان عيبه لا رده؛ لأن الكسر عيب حادث بحر وغيره.

قلت: الكسر في الجوز يزيد في ثمنه، فهو زيادة لا عيب تأمل. (قوله إلا إذا رضي البائع به) أي بأخذه معيبا بالكسر، فلا رجوع للمشتري بنقصانه۔"

(کتاب البیوع، باب خيار العيب، ج:5، ص:25، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"رجل اشترى من التاجر شيئا هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام قالوا ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام."

(کتب البیوع، الباب العشرون في البياعات المكروهة، ج:3، ص:210، ط:رشیدیة)

غمز عيون البصائر میں ہے: 

"اعلم أن الشك على ثلاثة أضرب: شك طرأ على أصل حرام، وشك طرأ على أصل مباح، وشك لا يعرف أصله، فالأول، مثل: أن يجد شاة مذبوحة في بلد فيها مسلمون ومجوس فلا تحل، حتى يعلم أنها ذكاة مسلم؛ لأن أصلها حرام وشككنا في الذكاة المبيحة، فلو كان الغالب فيها المسلمين ‌جاز ‌الأكل ‌عملا ‌بالغالب ‌المفيد للطهورية۔"

(القاعدة الثالثة اليقين لا يزول بالشك، ج:1، ص:193، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100802

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں