بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالخصومت کا کیس سماعت کرنے سے پہلے انتقال کی صورت میں لیے ہوئے اجرت کا حکم


سوال

اگر کوئی وکیل کسی بھی کیس کے متعلق اپنے موکل سے اپنی وکالت کی کچھ فیس طے کرتا ہے اور وہ طے شدہ فیس مکمل وصول کرتا ہے یا طے شدہ فیس کا کچھ حصہ وصول کرتا ہے مگر دوران سماعت کیس کے وکیل کا انتقال ہو جاتا ہے اور وکیل اپنے موکل کا کیس مکمل نہیں کر پاتا تو اس صورت میں وکیل کی طرف سے وصول کی جانے والی فیس قرض کے زمرے میں آتی ہے اور اس کے ورثا اس موکل کو وہ فیس قرض ادا کرنے کی صورت میں دینے کے پابند ہیں؟؟؟ اگر ہاں تو کیا وکیل اپنی زندگی میں جب بھی کسی موکل کا کیس لے اور فیس وصول کرے تو وکالت نامہ پر یہ تحریر کروا سکتا ہے کہ مرنے کی صورت میں موکل اپنی دی ہوئی فیس اللہ کے نام پر معاف کرے گا اور روز قیامت اس فیس کا مطالبہ نہیں کرے گا آیا یہ لکھوانا جائز ہے؟؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی وکیل مؤکل کے ساتھ اس طرح عقد کریں کہ عقد کے وقت کوئی ابہام یا جہالت باقی نہ رہے اور کیس یا مقدمہ کسی غیر شرعی امور میں نہ ہو، تو اس عقد وکالت پر اس کے لیےاجرت لینا جائز ہے، لیکن اگر  کیس کی  سماعت سے پہلے وکیل کا انتقال ہوجاتا ہے ، تو جو اجرت اس نے لی ہے  اس میں  جس قدر وکیل نے خدمت انجام دی ہے اس قدر اس کا ترکہ شمار ہوگا، باقی  اس کے ذمہ قرض ہوگا  لہٰذا اس کے ورثاء پر لازم ہے باقی  رقم مؤکل کو واپس کریں ، باقی عقد وکالت  میں یہ شرط لگانا کہ اگر کیس کی  سماعت سے پہلے وکیل کا انتقال ہوجائےتو  وصول شدہ فیس یا اجرت مؤکل معاف کرے گا، اس شرط کی وجہ سے  وکالت کا  عقد فاسد اورناجائزہے، اور فیس  بھی معاف نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(التوكيل صحيح)(وهو إقامة الغير مقام نفسه) ترفها أو عجزا (في تصرف جائز معلوم)۔"

(كتاب الوكالة،ج:5، ص: 509، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن ‌نقضت ‌الإجارة بعد ما قبض المؤجر الأجر حط من الأجرة قدر المستوفى من المنفعة ورد الباقي إلى المستأجر، كذا في الوجيز للكردري۔"

(كتاب الإجارة، الباب الثاني متى تجب الأجرة، ج:4، ص: 413، ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها)۔"

(‌‌كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،ج: 6، ص: 46، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"(و) لا (بيع بشرط)(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو)

وفي الرد:[تنبيه] المراد بالنفع ما شرط من أحد العاقدين على الآخر۔"

(كتاب البيوع‌‌، باب البيع الفاسد،مطلب في البيع بشرط فاسد،ج:5، ص: 84/85، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"لا يقبل التعليق بالشرط ألا ترى أنها لو قالت لزوجها: إن فعلت كذا فأنت بريء من المهر لا يصح.

قال لمديونه: إن لم أقتض مالي عليك حتى تموت، فأنت في حل فهو باطل؛ لأنه تعليق، والبراءة لا تحتمله بزازية۔"

(‌‌كتاب الهبة، ‌‌فصل في مسائل متفرقة، ج:5، ص:707، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں