بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا زکوٰۃ کی اشیاء اپنے استعمال میں لانے کاحکم


سوال

چند ماہ قبل جامعہ ھذا کے  دارالافتاء سے ہم نے ایک فتوی لیا تھا جوسوال کے ساتھ منسلک ہے،اس میں دو باتیں مطلوب تھیں ایک یہ کہ ایک فلاحی ادارے کو مخیر حضرات کی طرف سے دی جانے والی زکوٰۃ کی اشیاء  ملازمین خود استعال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اور دوسری بات یہ تھی کہ اگر ملازمین کے لیے ان اشیاء کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے تو جو سامان ملازمین اب تک استعمال کرچکے ہیں اس کاکیا حکم ہے؟ سابقہ فتوے میں پہلے جزء کا جواب تو دیا گیا ہے لیکن دوسرے جزء کا نہیں ،اب صرف دوسرے جزء کا جواب مطلوب ہے ۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ ادارے کے ملازمین نے زکوٰۃ  اور صدقات واجبہ  کی مد میں سے جو اشیاء خود استعمال کی ہیں، توان پر اس کا ضمان لازم ہے اور وہ ان اشیاء کی قیمت کے بقدر  پیسے مذکورہ ادارے میں جمع کرائیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ‌ضعها ‌حيث شئت."

(كتاب الزكاة ج:2، ص:269، ط:سعيد)

وفيه ايضاّ:

"(ولو أنفق بعضها فرد مثله فخلطه بالباقي) خلطا لا يتميز معه (ضمن) الكل لخلط ماله بها فلو تأتى التمييز أو أنفق، ولم يرد أو أودع وديعتين فأنفق إحداهما ضمن ما أنفق فقط مجتبى."

(كتاب الايداع ج:5، ص:669، ط:سعيد)

شرح المجلۃ میں ہے:

"القاعدة الثانية، إذا هلكت الأمانة بسبب صنع الأمين وفعله أو تقصيره في أمر المحافظة أو من جهة مخالفة صاحب المال المعتبر شرعا وغير الجائز مخالفته يكون الأمين ضامنا."

(کتاب الامانات،المادة 768،ج:2،ص:236، ط:دارالجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں