بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کی تیسری رکعت میں رکوع میں شامل ہونے والے کے لیے قنوت پڑھنے کا حکم


سوال

مقتدی  وتر کی آخری رکعت میں امام  کے ساتھ رکوع میں شامل ہوا تو اب مقتدی دعاءِ قنوت پڑھے گا یانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قنوت پڑھنا واجب ہے، لیکن صورتِ مسئولہ میں جب مقتدی امام کے ساتھ وتر کی تیسری رکعت  کے رکوع میں شریک ہوا، تواب اس کو تیسری رکعت مل گئی، گویا وہ تیسری رکعت  کے شروع سے امام کے ساتھ شامل تھا تو اب اس کو علیحدہ سے دعاءِ قنوت پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، امام کی قنوت  ا س کی بھی قنوت شمار ہوگی۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’وتر کی تیسری رکعت کے رکوع میں شریک ہونے والے کے لئے قنوت کا حکم

سوال [۱۰۳۹۷]: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں، وتر کی نماز با جماعت ہو رہی تھی ، ایک آدمی آیا اور آخری رکعت میں جب کہ امام نے رکوع کر دیا تھا ، شامل ہو گیا ۔ اب وہ آدمی اپنی نماز کیسے پوری کرے؟ یعنی اس کو آخری رکعت میں قنوت پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ ہم سے کہا گیا ہے کہ اس کو پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس نے آخری رکعت پالی ، قنوت پڑھنے کے متعلق بھی اختلاف ہے، بعض ائمہ فرماتے ہیں کہ سنت ہے اور بعض کے نزدیک واجب ہے، جو لوگ قنوت کو واجب مانتے ہیں ، ان کے نزدیک بھی اس صورت میں پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی، کیونکہ وہ مسبوق ہے، لیکن فتوی اسلامیہ امینیہ میں پڑھنے کو کہا گیا ہے۔ آپ سے دریافت یہ کرنا ہے کہ نہ پڑھنے کی صورت میں کیا دلیل ہے اور پڑھنے کی صورت میں کہاں سے استدلال کرتے ہیں اور دونوں میں مفتی بہ قول کیا ہے؟‘‘

الجواب حامداً ومصلياً :

قنوت وتر کی تیسری رکعت میں پڑھنا واجب ہے ۔ رمضان المبارک میں جب کہ امام تیسری رکعت میں قنوت پڑھ کر رکوع میں گیا، اس وقت کوئی مسبوق آکر رکوع میں شامل ہو گیا، تو اس کو تیسری رکعت مل گئی ، اب سلام امام کے بعد یہ شخص دو رکعت پڑھے گا، قنوت نہیں پڑھے گا، کیونکہ قنوت نہ پہلی رکعت میں میں پڑھی جاتی ہے نہ دوسری میں، بلکہ وہ تیسری میں پڑھی جاتی ہے، جو اس کو امام کے ساتھ مل گئی۔ ولو أدرك الإمام في ركوع الثالثة من الوتر كان مدركا للقنوت حكماً (فلا يأتي به فيما سبق كما لو قنت المسبوق معه في الثالثة أجمعوا أنه لا يقنت مرة أخرى فيما يقضيه؛ لأنه غير مشروع ۔ـ (مراقي الفلاح) . فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔ـــ‘‘

حرره العبد محمود غفرلہ، دارالعلوم دیو بند ،۱۴۰۰/۲/۱۰ھ۔

(باب الوتر، جلد:22، ص:185، ط: جامعہ دار الإفتاء فاروقیہ، کراچی)

فتاوی ہندیہ  میں  ہے:

"وإذا أدركه في الركعة الثالثة في الركوع ولم يقنت معه لم يقنت فيما يقضي. كذا في المحيط."

(كتاب الصلاة، الباب الثامن في صلاة الوتر، ج:1، ص:111، ط: دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وقنوت الوتر) أي قراءة‌‌ القنوت في الوتر ‌واجبة وهذا عند أبي حنيفة."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، القنوت في الوتر، ج:1، ص:318، ط: دار الكتاب الإسلامي)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"ولو أدرك الإمام في ركوع الثالثة من الوتر كان مدركا للقنوت" حكما "فلا يأتي به فيما سبق به" كما لو قنت المسبوق  معه في الثالثة أجمعوا أنه لا يقنت مرة أخرى فيما يقضيه لأنه غير مشروع."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب الوتر وأحكامه، ص:385، ط: العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما المسبوق فيقنت مع إمامه فقط ويصير مدركا بإدراك ركوع الثالثة."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:10، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509102259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں