بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کی رکعات


سوال

وتر کی رکعات کی تعداد کتنی ہے ؟چوں کہ میں ایک عرب ملک میں رہائش پذیر ہوں، یہاں پر بعض لوگ ایک بھی پڑھتے ہیں۔  احادیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں!

جواب

سب سے پہلے یہ نکتہ واضح رہنا چاہیے کہ نصوص سے احکام کے استنباط کے لیے فقہاءِ کرام میں سے ہر ایک  کے اپنے اصول ہیں، جب کسی مسئلے کے متعلق دلائل مختلف ہوں تو ہر فقیہ اپنے اصول کی بنا پر کسی دلیل کو ترجیح دیتا ہے، وتر پڑھنے کی کیفیت کے متعلق وارد  احادیثِ  مبارکہ چوں کہ  مختلف   ہیں  اور ائمہ فقہاء نے اپنے اپنے اصولوں کے مطابق دلائل کو ترجیح دے کر کسی ایک طریقے کو اختیار کیا ہے، لہٰذا ہمارے  فقہائے حنفیہ کے نزدیک  تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنا سنت ہے۔

 اس حوالے سے امام نسائی رحمہ اللہ  نے  ”سنن نسائی“  میں سند کے ساتھ حضرت ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ کی روایت درج کی ہے  :

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں ”سبح اسم ربك الأعلى“، دوسری رکعت میں ”قل یا ایها الكافرون“ اور تیسری رکعت میں ”قل هو الله احد“پڑھتے تھے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام فرماتے تھے“ ۔

اسی پر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عمر،حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہم اور دیگر حضرات کا عمل رہا ہے۔

معلوم ہوا کہ ہمارا وتر پڑھنے کاطریقہ بھی حدیث سے ثابت اور سنت کے مطابق ہے، اور ہمیں اسی طرح پڑھنا چاہیے، اور  عالمِ عرب میں عمومًا دیگر ائمہ (امام احمد بن حنبل یا امام شافعی یا امام مالک رحمہم اللہ ) کی تحقیق پر عمل کیا جاتا ہے، اسی لیے ان کے حق میں وہی درست ہے۔

سنن النسائي (3 / 235):

"عن أبي بن كعب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر بثلاث ركعات، كان يقرأ في الأولى بسبح اسم ربك الأعلى، وفي الثانية بقل يا أيها الكافرون، وفي الثالثة بقل هو الله أحد، ويقنت قبل الركوع، فإذا فرغ، قال عند فراغه: «سبحان الملك القدوس»، ثلاث مرات يطيل في آخرهن."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 5):

"(وهو ثلاث ركعات بتسليمة) كالمغرب."

 اس مسئلے کی  مزید تفصیل محد ث العصر حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ کی   "جزء الوتر"اور   علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی”نصب الرایة“اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی”اعلاء السنن“میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144211201064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں