بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کی رکعات کی تفصیل


سوال

 وتر کی کتنی رکعتیں ہیں مع دلائل،  تھوڑی وضاحت  فرمائیں!

جواب

وتر کی نماز  کی تین رکعتیں ہیں، ایک سلام  اور دو تشہد کے ساتھ، نمازِ مغرب کی طرح، اور یہ طریقہ  حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے منقول ہے،جن میں سے چند ذکر کی جاتی ہیں:

سنن نسائی میں روایت ہے کہ:

"أخبرنا یحیی بن موسیٰ قال: أخبرنا عبدالعزیز بن خالد، قال: حدثنا سعید بن أبي عروبۃ عن قتادۃ، عن عزرۃ، عن سعید بن عبدالرحمن بن أبزي، عن أبیہ، عن أبي بن کعب -رضي اﷲ عنہ- قال: "کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقرأ في الوتر بسبح اسم ربک الأعلی، وفي الرکعۃ الثانیۃ بقل یا أیہا الکافرون، وفي الثالثۃ بقل ہو االلہ أحد، ولا یسلم إلا فی آخرہن، ویقول: یعنی بعد التسلیم: سبحان الملک القدوس ثلاثا".

(کتاب  الصلاۃ، باب کیف الوتر بثلاث؟ج:1، ص:252، ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ ’’سبح اسم ربک الأعلی‘‘ اور دوسری رکعت میں ’’قل یا أیہا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں ’’قل ہو اللہ أحد‘‘ پڑھا کرتے تھے، اور تینوں رکعت کے آخر میں سلام پھیرتے تھے اور سلام کے بعد تین مرتبہ ’’سبحان الملک القدوس‘‘ پڑھا کرتے تھے۔"

شرح معانی الآثار کی روایت ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها ، قالت: «كان نبي الله صلى الله عليه وسلم ‌لا ‌يسلم في ‌ركعتي الوتر»".

(كتاب الصلاة، باب الوتر، ج:1، ص:280، ط:عالم الكتاب)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم وتر کی نماز میں دو رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔"

اسی کتاب میں صحابہ کرام کا  بھی یہی عمل مذکور ہے کہ :

"حدثنا أبو بكرة، قال: ثنا أبو داود، قال: ثنا أبو خلدة، قال: سألت أبا العالية عن الوتر، فقال: «علمنا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم أو ‌علمونا أن الوتر مثل صلاة المغرب ، غير أنا نقرأ في الثالثة ، فهذا وتر الليل ، وهذا وتر النهار»."

(باب الوتر، ج:1، ص:293، ط:عالم الکتب)

ترجمہ:" ابو خالدہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوالعالیہ سے نماز وتر کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب نے ہم کو وتر کی نماز اس طرح سے سکھائی ہے کہ بے شک وتر کی نماز کی کیفیت نماز مغرب کی کیفیت کی طرح ہے، علاوہ اس کے کہ وتر کی تیسری رکعت میں ہم قرأت کرتے ہیں (مغرب کی تیسری رکعت میں قرأت نہیں کرتے) تو یہ رات کی وتر ہے، اور یہ دن کی وتر ہے۔"

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"فقد اختلف العلماء فيه قال أصحابنا: الوتر ثلاث ركعات بتسليمة واحدة في الأوقات كلها، وقال الشافعي هو بالخيار إن شاء أوتر بركعة أو ثلاث أو خمس أو سبع أو تسع أو أحد عشر في الأوقات كلها، وقال الزهري: في شهر رمضان ثلاث ركعات وفي غيره ركعة احتج الشافعي بما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «من شاء أوتر بركعة ومن شاء أوتر بثلاث أو بخمس» ، ولنا ما روي عن ابن مسعود وابن عباس وعائشة - رضي الله عنهم - أنهم قالوا: «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يوتر بثلاث ركعات» ، وعن الحسن قال أجمع المسلمون على أن الوتر ثلاث لا سلام إلا في آخرهن، ومثله لا يكذب؛ ولأن الوتر نفل عنده والنوافل اتباع الفرائض فيجب أن يكون لها نظيرا من الأصول والركعة الواحدة غير معهودة فرضا وحديث التخيير محمول على ما قبل استقرار أمر الوتر بدليل ما روينا."

(كتاب الصلاة، فصل في أنواع الصلاة الواجبة، فصل الكلام في مقدار صلاة الوتر، ج:1، ص:271-272، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں