بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 محرم 1447ھ 02 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

وتر کی نماز سے متعلق وضاحت


سوال

وتر واجب کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت درکار ہے ۔

جواب

آپ کے سوال واضح نہیں ہے کہ آپ کو وتر کی نماز سے متعلق کیا وضاحت درکار ہے، اگر دوبارہ وضاحت کے ساتھ سوال ارسال کردیں تو آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا، اصولی جواب یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک وتر کی نماز بھی ہے جس کا پڑھنا فرض نہیں بلکہ واجب ہے، جس کی خبر جنابِ رسول اللہ ﷺ نے دی ہے، چناں چہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازوں کے علاوہ ایک اضافی نماز تمہارے لیے مقرر فرمائی ہے، خوب غور سے سن لو کہ وہ وتر کی نماز ہے، پس اسے عشا اور طلوع فجر کے درمیان پڑھو، اسی لیے  رسول اللہ ﷺ خود بھی ہمیشہ وتر کی نماز پڑھا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے امت کو بھی انتہائی تاکید کے ساتھ وتر کی نماز پڑھنے حکم فرمایا ہے، چناں چہ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ" وتر کی نماز حق ( واجب و  ضروری) ہے، جو شخص وتر کی نماز نہ پڑھے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں"، اسی لیے فقہاءِکرام نے وتر کی نماز کو واجب قرار دیا ہے۔ ابو داؤد شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنابِ رسول اللہ ﷺ وتر کی تین رکعتیں پڑھتے تھے اور پہلی رکعت میں سورہ اعلیٰ، دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔

 حدیث شریف میں ارشاد ہے :

"حدثنا ابن المثنى، حدثنا أبو إسحاق الطالقاني، حدثنا الفضل بن موسى، عن عبيد الله بن عبد الله العتكي، عن عبد الله بن بريدة عن أبيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "الوتر حق، فمن لم يوتر، فليس منا، الوتر حق، فمن لم يوتر فليس منا، الوتر حق فمن لم يوتر فليس منا."

(‌‌سنن أبي داود، كتاب الصلاة‌‌، باب تفريع أبواب الوتر 2/ 559، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ: وتر کی نماز حق ( واجب و  ضروری) ہے، جو شخص وتر کی نماز نہ پڑھے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں،وتر کی نماز حق ہے، جو شخص وتر کی نماز نہ پڑھے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں،وتر کی نماز حق  ہے، جو شخص وتر کی نماز نہ پڑھے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

"حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا أبو حفص الأبار (ح) وحدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا محمد بن أنس - وهذا لفظه - عن الأعمش، عن طلحة وزبيد، عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه عن أبي بن كعب، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بـ {سبح اسم ربك الأعلى}، وقل للذين كفروا، والله الواحد الصمد."

(‌‌سنن أبي داود، كتاب الصلاة‌‌، باب تفريع أبواب الوتر 2/ 562، ط:دار الرسالة العالمية)

   ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں ” سورۃ الاعلیٰ“، دوسری رکعت میں ” سورۃالکافرون“ اور تیسری رکعت میں ” سورۃ الاخلاص“پڑھتے تھے۔

«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» میں ہے:

"روى خارجة بن حذافة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن الله تعالى زادكم صلاة ألا وهي الوتر فصلوها ما بين العشاء إلى طلوع الفجر» والاستدلال به من وجهين: أحدهما أنه أمر بها ومطلق الأمر للوجوب، والثاني أنه سماها زيادة والزيادة على الشيء لا تتصور إلا من جنسه فأما إذا كان غيره فإنه يكون قرانا لا زيادة ولأن الزيادة إنما تتصور على المقدر وهو الفرض، فأما النفل فليس بمقدر فلا تتحقق الزيادة عليه، ولا يقال: إنها زيادة على الفرض لكن في الفعل لا في الوجوب؛ لأنهم كانوا يفعلونها قبل ذلك ألا ترى أنه قال: ألا وهي الوتر؟ ذكرها معرفة بحرف التعريف، ومثل هذا التعريف لا يحصل إلا بالعهد ولذا لم يستفسروها. ولو لم يكن فعلها معهودا لاستفسروا فدل أن ذلك في الوجوب لا في الفعل، ولا يقال: إنها زيادة على السنن؛ لأنها كانت تؤدى قبل ذلك بطريق السنة. وروي عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «أوتروا يا أهل القرآن فمن لم يوتر فليس منا» ومطلق الأمر للوجوب، وكذا التوعد على الترك دليل الوجوب، وروى أبو بكر أحمد بن علي الرازي بإسناده عن أبي سليمان ابن أبي بردة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «الوتر حق واجب فمن لم يوتر فليس منا» وهذا نص في الباب، وعن الحسن البصري أنه قال: أجمع المسلمون على أن الوتر حق واجب، وكذا حكى الطحاوي فيه إجماع السلف ومثلهما لا يكذب؛ ولأنه إذا فات عن وقته يقضى عندهما وهو أحد قولي الشافعي، ووجوب القضاء عن الفوات لا عن عذر يدل على وجوب الأداء؛ ولذا لا يؤدى على الراحلة بالإجماع عند القدرة على النزول، وبعينه ورد الحديث وذا من أمارات الوجوب والفرضية ولأنها مقدرة بالثلاث والتنفل بالثلاث ليس بمشروع."

(‌‌كتاب الصلاة‌‌، فصل في أنواع الصلاة الواجبة ومنها صلاة الوتر، 1/ 271، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں