بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

وتر کی دوسری رکعت کے قعدہ کو قعدہ اخیرہ سمجھ کرسجدہ سہو کیا، بعد ازاں یاد آنے پر تیسری رکعت ادا کر کے سجدہ سہو کرنے کا حکم


سوال

میں وتر کی نماز پڑھ رہا تھا، دوسری رکعت کے قعدے میں مجھے یہ خیال آیا کہ یہ میری تیسری رکعت کا قعدہ ہے اور میں نے تیسری رکعت میں دعائے قنوت نہیں پڑھی، یہ سوچ کر میں نے سجدہ سہو کرلیا، اس کے بعد مجھے یاد آگیا کہ یہ تو میری دوسری رکعت کا قعدہ تھا، لہٰذا میں التحیات مکمل کر کے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا، تیسری رکعت مکمل کر کے آخر میں دوبارہ سجدہ سہو ادا کرلیا، سوال یہ ہے کہ کیا میری نماز ہوگئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ آپ نے وتر کی دوسری رکعت کے قعدے کو غلطی سے تیسری (یعنی آخری) رکعت کا قعدہ سمجھ کر سجدہ سہو کے لیے سلام پھیر کر سجدہ سہو کرلیا تھا اس لیے اس سلام سے نماز فاسد نہیں ہوئی، البتہ تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے میں تاخیر ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوگیا تھا، لہٰذا  پھر جب آپ نے یاد آنے پر تیسری رکعت مکمل کر کے آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو آپ کی نماز درست ہوگئی، اس لیےنماز کا اعادہ کرنا لازم نہیں ہوا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(سلم مصلي الظهر) مثلًا (على) رأس (الركعتين توهمًا) إتمامها (أتمها) أربعًا (وسجد للسهو) لأن السلام ساهيًا لايبطل لأنه دعاء من وجه (بخلاف ما لو سلم على ظن) أن فرض الظهر ركعتان، بأن ظن (أنه مسافر أو أنها الجمعة أو كان قريب عهد بالإسلام فظن أن فرض الظهر ركعتان أو كان في صلاة العشاء فظن أنها التراويح فسلم) أو سلم ذاكرا أن عليه ركنا حيث تبطل لأنه سلام عمد. وقيل لا تبطل حتى يقصد به خطاب آدمي.

(قوله: توهما) أي ذا توهم أو متوهما (قوله أتمها أربعا) إلا إذا سلم قائما في غير جنازة كما قدمه في مفسدات الصلاة؛ لأن القيام في غير الجنازة ليس مظنة للسلام فلايغتفر السهو فيه. (قوله: لأنه دعاء من وجه) أي فلذا خالف الكلام حيث كان مبطلًا ولو ساهيًا.

(قوله: لأنه سلام عمد) استشكل العلامة المقدسي الفرق بينه وبين ما قبله فإنه عمد أيضا. قلت: وذكر في شرح المنية الفرق بأنه في الأول سلم على ظن إتمام الأربع فيكون سلامه سهوا، وهنا سلم عالما بأنه صلى ركعتين فوقع سلامه عمدا فيكون قاطعا فلا يبني. اهـ. وفي التتارخانية أن السهو إن وقع في أصل الصلاة أوجب فسادها، وإن في وصفها فلا، فالأول كما إذا سلم على الركعتين على ظن أنه في الفجر أو الجمعة أو السفر، والثاني كما إذا سلم عليهما على ظن أنها رابعة اهـ أي لأن العدد بمنزلة الوصف. والحاصل أنه إذا ظن أنها الفجر مثلا يكون قاصدا لإيقاع السلام على رأس الركعتين فيكون متعمدا للخروج قبل إتمام الصلاة التي شرع فيها، بخلاف ما إذا سلم على ظن الإتمام فإنه لم يتعمد إلا إيقاعه بعد الأربع، فوقع قبلها سهوا؛ وبالجملة فالسلام من حيث ذاته عمد فيهما، ومن حيث محله مختلف فتدبر.

(قوله وقيل لا تبطل إلخ) ذكره في البحر بحثا أخذا مما في المجتبى: لو سلم المصلي عمدا قبل التمام، قيل تفسد، وقيل لا حتى يقصد به خطاب آدمي اهـ فقال في البحر: فينبغي أن لا تفسد في هذه المسائل على القول الثاني اهـ ومثله في النهر. قال الشيخ إسماعيل وهو ظاهر، والأول المجزوم به في كتب عديدة معتمدة. اهـ"

(كتاب الصلاة، باب سجود السهو،2/ 91، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو سلم مصلي الظهر على رأس الركعتين على ظن أنه قد أتمها، ثم علم أنه صلى ركعتين، وهو على مكانه ، يتمها ويسجد للسهو أما الإتمام فلأنه سلام سهو فلا يخرجه عن الصلاة.وأما وجوب السجدة فلتأخير الفرض وهو القيام إلى الشفع الثاني ، بخلاف ما إذا سلم على رأس الركعتين على ظن أنه مسافر أو مصلي الجمعة، ثم علم أنه تفسد صلاته؛ لأن هذا الظن نادر فكان سلامه سلام عمد، وأنه قاطع للصلاة."

(كتاب الصلاة، فصل بيان سبب وجوب سجود السهو،1/ 164، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601100563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں