بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کے بغیر عشاء کے فرائض کا حکم


سوال

وتر کی نماز چھوڑنے سے عشاء کی نماز نہیں ہوتی اور عشاء کی فرض نماز ادا کرنے کا ثواب بھی نہیں ملتا، یہ بات کہاں تک درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عشاء کے فرض ادا کرنے سے ادا ہوجاتے ہیں ، اور اس کے ثواب میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی ، البتہ  صرف فرض نماز پر اکتفاء کرنا اور واجب کو چھوڑ دینا درست نہیں ،فرض نماز تو فرض ہے، اور وتر کی نماز واجب ہے، اور وتر کو مستقل طور پر چھوڑنے کی عادت بنانے والا گناہ گار ہوتا ہے۔

"سنن أبي داود" میں ہے :

"عن عبد الله بن بريدة عن أبيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "‌الوتر ‌حق، فمن لم يوتر، فليس منا، ‌الوتر ‌حق، فمن لم يوتر فليس منا، ‌الوتر ‌حق فمن لم يوتر فليس منا."

(‌‌كتاب الصلاة، باب فيمن لم يوتر، رقم الحديث:1419، ج:2، ص:559، ط:دار الرسالة العالمية)

"الفتاوی الهندية" میں ہے:

"و وقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلى الصبح. كذا في الكافي. ولايقدم الوتر على العشاء لوجوب الترتيب لا لأن وقت الوتر لم يدخل حتى لو صلى الوتر قبل العشاء ناسيا أو صلاهما فظهر فساد العشاء دون الوتر فإنه يصح الوتر ويعيد العشاء وحدها عند أبي حنيفة - رحمه الله -؛ لأن الترتيب يسقط بمثل هذا العذر."

(كتاب الصلاة، الباب الأول في مواقيت الصلاة وما يتصل بها، الفصل الأول في أوقات الصلاة، ج:1، ص:51، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں