اگر کوئی شخص رمضان میں امام کے ساتھ فرض نماز پڑھ کر سنت ادا کرنے کے بعد تمام تراویح چھوڑ دے توکیا ایسا شخص وتر امام کے ساتھ جماعت کے ساتھ پڑھ سکتا ہے ؟جب کہ تراویح امام کے ساتھ نہیں پڑھی ہے۔
تراویح کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیےسنت موکدہ ہے،بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔خلفاء راشدین،صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے، اور مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنت کفایہ ہے، یعنی اگر محلہ کے چند افراد اس سنت کو جماعت کے ساتھ ادا کرلیں تو سب کا ذمہ فارغ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے، جو مرد انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے محروم ہے گا۔لہذا صورت مسؤلہ میں اگر کوئی شخص رمضان میں امام کے ساتھ فرض نماز پڑھ کر سنت ادا کرنے کے بعد تمام تراویح ہی چھوڑ دے تویہ سنت مؤکدہ کا چھوڑنا ہے، اور مستقل چھوڑنے والا قابل ملامت ہے، البتہ ایسا شخص اگر وتر امام کے ساتھ جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو وتر ہوجائے گی ۔
''فتاوی شامی'' میں ہے:
"الذي يظهر أن جماعة الوتر تبع لجماعة التراويح وإن كان الوتر نفسه أصلاً في ذاته؛ لأن سنة الجماعة في الوتر إنما عرفت بالأثر تابعة للتراويح على أنهم اختلفوا في أفضلية صلاتها بالجماعة بعد التراويح كما يأتي".
(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج: 2، صفحہ: 48، ط: ایچ، ایم، سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ويوتر بجماعة في رمضان فقط عليه إجماع المسلمين، كذا في التبيين الوتر في رمضان بالجماعة أفضل من أدائها في منزله وهو الصحيح، هكذا في السراج الوهاج ...... وإذا جازت التراويح بإمامين على هذا الوجه جاز أن يصلي الفريضة أحدهما ويصلي التراويح الآخر وقد كان عمر رضي الله تعالى عنه يؤمهم في الفريضة والوتر وكان أبي يؤمهم في التراويح، كذا في السراج الوهاج."
(کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراويح، ج: 1، صفحہ: 116، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101858
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن