بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر كے متعلق چند سوالات


سوال

1۔نمازِ عشاء کی کتنی رکعتیں ہیں؟2۔ کیا وتر واجب ہے یافرض؟3۔ کیا وتر کے ادا کیے بغیر نمازِ عشاء ہوجائےگی؟

جواب

1۔عشاء کی نماز میں 9 رکعات لازمی ہیں،چار فرض ، فرض کے بعددو سنت مؤکدہ اور تین وتر واجب،اس کے علاوہ بقیہ سنن غیرمؤکدہ اور نوافل ہیں،جس میں چار سنتیں(غیرمؤکدہ)فرض سے قبل،دو نفل وتر سے قبل اور دو نفل وتر کے بعد ہے، یوں مجموعی طور پر سترہ رکعات ہوئیں،باقی چار فرض سے پہلے چار رکعت جو کہ سنت غیرموٴکدہ ہیں  صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہاں ان چار رکعتوں کے پڑھنے کا معمول تھا،اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو جو عمل  کرتے دیکھتے،  اسے اپنی زندگیوں میں لاتے تھے۔

چناں چہ ”قیام اللیل للامام المروزی“ میں حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے منقول ہے:

"عن سعید بن جبیر -رحمه اللہ- کانوا یستحبون أربع رکعات قبل العشاء الآخرة."

(قیام اللیل لمحمد نصر المروزي:ج:1، ص:88، ط: فیصل آباد، باکستان)

نیز ”الاختیار لتعلیل المختار“ جو فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہے، اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت نقل کی گئی ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے ۔

"عن عائشة أنه -علیه الصلاة والسلام- کان یصلي قبل العشاء أربعا ثم یصلي بعدہا أربعًا ثم یضطجع."

( الاختیار لتعلیل المختار،ج:1،ص:66،ط: بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسن) مؤكدا (أربع قبل الظهر )...(وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء) شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان (ويستحب أربع قبل العصر، وقبل العشاء وبعدها بتسليمة) وإن شاء ركعتين.

وفي الرد:(قوله وإن شاء ركعتين) كذا عبر في منية المصلي. وفي الإمداد عن الاختيار: يستحب أن يصلي قبل العشاء أربعا وقيل ركعتين، وبعدها أربعا وقيل ركعتين اهـ. والظاهر أن الركعتين المذكورتين غير المؤكدتين."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:13، ط:سعيد)

2۔وتر كي نماز واجب هے:

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الصلاة الواجبة فنوعان: صلاة الوتر، وصلاة العيدين."

(کتاب الصلوۃ، ج: 1، ص: 270، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(الترتيب بين الفروض الخمسة والوتر أداء وقضاء لازم).....(فلم يجز) .. (فجر من تذكر أنه لم يوتر) لوجوبه عنده (إلا) .. (إذا ضاق الوقت المستحب)".

(كتاب الصلوة، ج: 2، ص: 65، ط: سعيد)

3۔ واضح رہے کہ وتر ایک مستقل نماز ہے،لہذا اگر کسی نے عشاء کی نماز پڑھ لی اور وتر ادا نہیں کی تو عشاء کی نماز ادا ہوجائے گی اوروتر نہ پڑھنے کا گناہ اس کو ملے گا۔اس پرلازم ہے کہ وقت کے اندر وتر پڑھ لے اگروقت (طلوع فجر سے قبل تک)نماز وتر نہیں پڑھی تو بعد میں قضا کرنا ضروری ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فإنها تؤدى تبعا للعشاء، والفرض ما لا يكون تابعا لفرض آخر، وليس لها وقت ولا أذان ولا إقامة ولا جماعة، ولفرائض الصلوات أوقات وأذان وإقامة جماعة ولذا يقرأ في الثلاث كلها."

(كتاب الصلوة، ج: 1، ص: 271، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502102220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں