بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر میں امام نے قنوت بھول کر رکوع کیا مقتدیوں کے لقمہ دینے پر رکوع سے کھڑا ہوکر قنوت پڑھی


سوال

تقریباً 14 رمضان المبارک کی شب ہماری مسجد کے امام صاحب وتر نماز میں دعائے قنوت چھوڑ کر رکوع میں چلے گئے اور مقتدیوں میں سے کوئی بھی رکوع میں نہیں گیا، بلکہ اللہ اکبر  کہہ  کر امام صاحب کو واپس بلایا  اور امام صاحب  رکوع کرکے واپس آئے اور دعا پڑھ کر دوبارہ رکوع کر کے سجدہ سہو کے ساتھ نماز مکمل کی، (1) اس صورت میں امام کے دو رکوع ہوئے اور مقتدیوں کا ایک رکوع (2) مقتدیوں نے ایک رکوع میں امام کی اقتدا  چھوڑ دی  یعنی پہلا رکوع صرف امام صاحب نے اکیلے  کیا  (3) اور مقتدیوں نے فرض پر واجب کو  فضلیت دی  یعنی رکوع چھوڑ کر دعاے قنوت پڑھا امام صاحب کی نماز تو ہوگئی،  لیکن مسئلہ مقتدیوں کی نماز کا ہے، کیا مقتدیوں کی نماز اس صورت میں ادا ہو گئی یا فاسد ہو گئی؟ 

جواب

1۔ صورتِ  مسئولہ میں امام وتر کی آخری رکعت میں جب دعائے قنوت بھول کر رکوع میں چلا گیا تھا تو یاد آنے پر یا لقمہ ملنے پرواپس نہیں لوٹنا چاہیے تھا،  بلکہ اخیر  میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلینی تھی، لیکن اگر لوٹ کر دعائے قنوت پڑھ لی پھر دوبارہ دوسرا دکوع بھی کرلیا  تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوئی اورجب آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو تلافی ہوگئی اوروتر درست ادا ہوگئے،اب اعادہ کی ضرورت نہیں۔

کذا في رد المحتار:

’’کما لو سها عن القنو ت فرکع فإنه لو عاد وقنت لاتفسد صلاته علی الأصحّ‘‘. (ج:۲، ص: ۸۴) 

2،3-  جو مقتدی  امام کے ساتھ  کسی بھی رکوع میں شامل ہوگئے ان کی نماز بھی ہوگئی اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں،  اس لیے کہ رکن ادا ہوگیا  ہے، باقی یہ بات کہ مقتدیوں نے فرض رکوع کو چھوڑ کر قنوت واجب کو  ترجیح دی تو اس سے نہ امام کی نماز فاسد ہوئی نہ مقتدیوں کی، کیوں کہ فرض ترک نہیں کیا،  بلکہ مؤخر کیا ہے تاخیر فرض سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے جو ادا کرلیا گیا ۔ فقہاء کی عبارات حسبِ ذیل ہیں:

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 164):
"وكذا إذا ركع في موضع السجود أو سجد في موضع الركوع أو ركع ركوعين أو سجد ثلاث سجدات لوجود تغيير الفرض عن محله أو تأخير الواجب".

"وإن استقام قائماً لایعود لاشتغاله بفرض القیام وسجد للسهو لترك الواجب فلوعاد إلی القعود بعد ذلك تفسد صلوته لرفض الفرض لِما لیس بفرض، وصححه الزیلعي، وقیل: لاتفسد لکنه یکون مسیئاً ویسجد لتأخیر الواجب وهو الأشبه کما حققه الکمال وهو الحق".

وفي الشامیة:

"ما في المبتغي من أن القول بالفساد غلط؛ لأنه لیس بترك؛ بل هو تأخیر کما لو سها عن السورة فرکع، فإنه یرفض الرکوع ویعود إلی القیام ویقرأ". (درمختار مع الشامي، کتاب الصلاة، مطبوعه، کراچي ۲/۸۴، زکریا ۲/۵۴۹،کوئٹہ ۱؍۵۵۰)
"وفي البحر:  وحکمه أنه یبدأ بقضاء ما فاته بالعذر ثم یتابع الإمام إن لم یفرغ، وهذا واجب لا شرط حتی لو عکس یصح؛ فلو نام في الثالثة واستیقظ في الرابعة فإنه یأتي بالثالثة بلا قراء ة، فإذا فرغ منها صلی مع الإمام الرابعة، وإن فرغ منها الإمام صلاها وحده بلا قراء ة أیضاً؛ فلو تابع الإمام ثم قضی الثالثة بعد سلام الإمام صح وأثم اهـ، ومثله في الشرنبلالیة وشرح الملتقی للباقاني". (رد المحتار، کتاب الصلاة، آخر باب الإمامة، ۲:۳۴۵، ۳۴۶)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں