بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر میں دعاء قنوت کا تکرار / مسبوق کے لیے وتر میں قنوت کا حکم


سوال

  تکرارِ  دعاءِ قنوت سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے یا نہیں؟ ایک شخص نے امام کے ساتھ دو رکعت وتر پڑھنے کے بعد آخر میں باقی ماندہ رکعت پوری کرتے ہوئے آخر میں پھر دوبارہ دعاءِ  قنوت پڑھی،  یعنی دو الگ الگ رکعتوں میں دو مرتبہ دعاءِ  قنوت پڑھی ہے،  اب اس صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ وتر کی تیسری رکعت میں  قنوت میں کوئی بھی دعاء مختصر یا طویل پڑھ لی جائے تو واجب ادا ہوجاتا ہے، اور مشہور دعا ”اللھم انا نستعینك ...الخ “ پوری پڑھنا سنت ہے،  واجب نہیں، لہٰذا اس میں سے کسی حصہ کے  چھوڑ دینے  یا تکرار یا پوری دعاء کے  تکرار سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔

البتہ دعاءِ  قنوت تیسری رکعت میں پڑھنا واجب ہے، وتر کی دوسری یا تیسری رکعت میں پڑھنا درست نہیں ہے؛ لہٰذا اگر کوئی  شخص امام کی ایک رکعت ہوجانے کے بعد وتر میں شامل ہو ا  تو اس کے لیے  امام کے پیچھے تیسری رکعت میں پڑھی گئی دعائے قنوت کافی ہے، فوت شدہ رکعتوں کی ادائیگی میں دوبارہ قنوت پڑھنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ  امام کے سلام کے بعد مسبوق وہ رکعت ادا  کرتاہے جو اس سے چھوٹ گئی ہوں، اور یہاں اس کی پہلی رکعت چھوٹی ہیں، اور اس میں قنوت نہیں ہے، اور چوں کہ امام کی نماز کے بعد  یہ مسبوق کی اپنی نماز ہے، اس لیے اس پر سجدہ سہو بھی واجب ہوگا، اگر  سجدہ سہو  نہیں کیا تو نماز ِ وتر کا اعادہ وقت کے اندر واجب تھا، اب واجب نہیں ہے، بلکہ وتر نقصان کے ساتھ ادا ہوگئی۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 148):

"(أو كرره) أي الركن وفيه إشعار بأنه لو كرر واجبا لم يجب السهو لكن في الخزانة وغيره أن تكرار الفاتحة في الأوليين يوجب السهو ويمكن أن يقال: إن التكرار لم يوجب بل ترك السورة فإنها تجب أن تلي الفاتحة."

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  (1 / 385):

"ولو أدرك الإمام في ركوع الثالثة من الوتر كان مدركًا للقنوت" حكمًا "فلايأتي به فيما سبق به" كما لو قنت المسبوق معه في الثالثة أجمعوا أنه لايقنت مرةً أخرى فيما يقضيه؛ لأنه غير مشروع."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 10):

"(قنت في أولى الوتر أو ثانيته سهوا لم يقنت في ثالثته) أما لو شك أنه في ثانيته أو ثالثته كرره مع القعود في الأصح. والفرق أن الساهي قنت على أنه موضع القنوت فلا يتكرر، بخلاف الشاك ورجح الحلبي تكراره لهما؛ وأما المسبوق فيقنت مع إمامه فقط ويصير مدركا بإدراك ركوع الثالثة.

(قوله: فيقنت مع إمامه فقط) لأنه آخر صلاته، وما يقضيه أولهما حكما في حق القراءة وما أشبهها وهو القنوت؛ و إذا وقع قنوته في موضعه بيقين لايكرر لأن تكراره غير مشروع شرح المنية."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 164):

"و أما بيان سبب الوجوب فسبب وجوبه ترك الواجب الأصلي في الصلاة، أو تغييره أو تغيير فرض منها عن محله الأصلي ساهيًا؛ لأن كل ذلك يوجب نقصانًا في الصلاة فيجب جبره بالسجود."

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110201444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں