بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کی نیت سے تراویح پڑھنے کاحکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام تراویح کی نماز پڑھا رہا ہو ،اور مقتدی وتر کی نیت کرکے نماز پڑھ رہا ہو ،تو ایسی صورت میں مقتدی کی نماز ہوگی؟ صورت حال یہ ہے کہ امام صاحب سے تراویح میں رکعت میں سہو ہوا، اور انہوں نے لقمہ لیا  ،پر سجدہ سہو نہیں کیا ،پھر آخر میں انہونے ۲ دو رکعت اور پڑھائی، لیکن مکبر نے آہستہ سے اعلان کیا، جس کی وجہ سے قریب کے لوگ سن سکیں، لیکن کنارے کے لوگ نہ سن سکیں، اور کنارے کے لوگوں نے وتر کی نیت کی، تو اس صورت میں کنارے کے لوگوں کی نماز تراویح ہوئی کہ نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ امام کی نماز کامقتدی کی نمازسے قوی ہوناضروری ہے،اوراگرمقتدی کی نمازامام کی نمازسے قوی ہوئی،تومقتدی کی نمازادانہیں ہوگی؛لہذامذکورہ صورت میں مقتدیوں نےامام کےپیچھےوترکی نیت  کی، جوکہ واجب ہے،اورامام نےتراویح کی نیت کی،تومقتدی کی نمازامام سے قوی ہوئی،تومقتدیوں  کی نمازادانہیں ہوئی،وتر کی نماز دوبارہ پڑھیں، باقی تراویح کی نماز وقت گزرنے کے بعد قضاء کرنے کی ضرورت نہیں، اور سجدہ سہو کرنا کیوں لازم تھا اس کی تفصیل لکھ کر دارالافتاء سے دوبارہ رجوع کریں۔

الجوہرۃ النیرہ میں ہے:

"(قوله: ولا يصلي ‌المفترض ‌خلف ‌المتنفل) لأن الاقتداء بناء ووصف الفرضية معدوم في حق الإمام فلا يتحقق البناء على المعدوم ويجوز اقتداء المتنفل بالمفترض؛ لأن صلاة الإمام تشتمل على صلاة المقتدي وزيادة فصح اقتداؤه بخلاف المفترض بالمتنفل؛ لأنه بناء قوي على ضعيف فلا يجوز."

(كتاب الصلوة،باب صفة الصلوة،٦٢/١،ط:المطبعة الخيرية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں