بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کے بعد نوافل پڑھنے کا حکم


سوال

کیا وتر کے بعد نوافل پڑھے جاسکتے ہیں؟

جواب

 پورے سال (رمضان المبارک ہو یا غیر رمضان) وتر کی نماز کے بعد  کو ئی بھی نفل نماز پڑھنا جائز ہے، چاہے تہجد کی نیت سے ہو یا کسی اور نیت سے ہو، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

البتہ رمضان کے علاوہ بقیہ ایام میں مستحب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اعتماد ہو کہ وہ رات میں سونے کے بعد تہجد کے لیے بیدار ہوجائے گا تو اسے چاہیے کہ وہ تہجد کی نماز کے بعد وتر کی نماز ادا کرے؛ کیوں کہ حدیث میں رات کی آخری نماز وتر پڑھنے کا ذکر ہے، لیکن اس کا درجہ مستحب ہے، یعنی ایسا کیا تو ثواب ہوگا، نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں ہوگا، اور جن لوگوں کو رات کے آخری حصہ میں بیدار ہونے کا یقین نہ ہو ان کو چاہیے کہ وہ وتر پڑھ کر سویا کریں، پھر جب تہجد کے وقت بیدار ہوں تو تہجد بھی پڑھ لیں اور رمضان المبارک میں وتر کی نماز جماعت سے ہی پڑھنا چاہیے، اس کے بعد پوری رات صبح صادق تک جتنے چاہیں نوافل ادا کرسکتے ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) تأخير (الوتر إلى آخر الليل لواثق بالانتباه) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلى نوافل والحال أنه صلى الوتر أول الليل فإنه الأفضل.
(قوله: وتأخير الوتر إلخ) أي يستحب تأخيره، لقوله صلى الله عليه وسلم: «من خاف أن لايوتر من آخر الليل فليوتر أوله، ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخر الليل، فإن صلاة آخر الليل مشهودة وذلك أفضل» ). رواه مسلم والترمذي وغيرهما. وتمامه في الحلية. وفي الصحيحين: «اجعلوا آخر صلاتكم باللیل وتراً» والأمر للندب بدليل ما قبله، بحر.
(قوله: فإن فاق إلخ) أي إذا أوتر قبل النوم ثم استيقظ يصلي ما كتب له، ولا كراهة فيه بل هو مندوب، ولايعيد الوتر، لكن فاته الأفضل المفاد بحديث الصحيحين، إمداد.
ولايقال: إن من لايثق بالانتباه فالتعجيل في حقه أفضل، كما في الخانية. فإذا انتبه بعدما عجل يتنفل ولاتفوته الأفضلية؛ لأنا نقول: المراد بالأفضلية في الحديث السابق هي المترتبة على ختم الصلاة بالوتر وقد فاتت، والتي حصلها هي أفضلية التعجيل عند خوف الفوات على التأخير، فافهم وتأمل".

(كتاب الصلاة،ج:1، ص:369،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں