کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد آپ کے چچا (حضرت عباس) کو وسیلہ بنا کر دعا مانگی گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ وصال کے بعد نبی کریم ﷺ سے دعا مانگنی یا آپ کو وسیلہ بنانا درست نہیں، کیونکہ صحابہ کرام نے اس موقع پر نبی کریم ﷺ کے بجائے آپ کے چچا کا وسیلہ اختیار کیا۔ تو ایسے نظریے رکھنے والوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟
واضح رہے کہ براہ راست حضور ﷺ سے مانگنا، نہ آپ کی زندگی میں جائز تھا، نہ وصال کے بعد جائز ہے۔البتہ آپ ﷺ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا آپ کی حیاتِ مبارکہ میں بھی جائز تھا، وصال کے بعد بھی جائز ہے، اور یہ دعا کی قبولیت کا ذریعہ بھی ہے۔بلکہ یہ تو آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے بھی جائز تھا، چنانچہ اہل کتاب جنگوں میں مشرکین کے مقابلے میں آپ ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگا کرتے تھے۔یہی جمہور امت کا مذہب ہے، اور قرآن و حدیث سے بھی یہی ثابت ہے۔جو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اُس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں انہوں نے آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا مانگی، اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز نہیں، تو یہ استدلال درست نہیں۔کیونکہ حدیث میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ وصال کے بعد نبی ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنا ناجائز ہے، بلکہ اس میں بھی درحقیقت نبی ﷺ ہی کے وسیلے سے دعا مانگی گئی، جیسا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا:
"اللهمَّ إِنا كنا نَتَوَسل إِلَيْكَ بنبينَا فَتسْقينَا، وَإِنا نَتوَسل إِليك بعم نبينا"
یعنی: اے اللہ! ہم پہلے تیرے نبی کے وسیلے سے بارش مانگا کرتے تھے، اب ہم تیرے نبی کے چچا کے وسیلے سے مانگتے ہیں۔
یہ کہنا کہ "اب ہم نبی کے چچا کے وسیلے سے دعا مانگتے ہیں" کا مطلب نبی ﷺ کے وسیلے کی نفی نہیں، بلکہ اُن کی نسبت سے ایک دوسری شکل ہے۔البتہ صرف اس عقیدے کی وجہ سے کسی کو کافر یا فاسق نہیں کہاجاسکتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا." [البقرة:89]
تفسير الألوسي روح المعاني میں ہے :
"نزلت في بني قريظة والنضير كانوا يستفتحون على الأوس والخزرج برسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قبل مبعثه- قاله ابن عباس رضي الله تعالى عنهما وقتادة- والمعنى يطلبون من الله تعالى أن ينصرهم به على المشركين، كما روى السدي أنهم كانوا إذا اشتد الحرب بينهم وبين المشركين أخرجوا التوراة ووضعوا أيديهم على موضع ذكر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وقالوا: اللهم إنا نسألك بحق نبيك الذي وعدتنا أن تبعثه في آخر الزمان أن تنصرنا اليوم على عدونا فينصرون."
(ج:1،ص:319،ط:دارا لکتب العمیة)
المعجم الصغير للطبراني میں ہے:
"عن عمه عثمان بن حنيف " أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضي الله عنه في حاجة له ، فكان عثمان لا يلتفت إليه ، ولا ينظر في حاجته ، فلقي عثمان بن حنيف ، فشكا ذلك إليه ، فقال له عثمان بن حنيف: ائت الميضأة فتوضأ ، ثم ائت المسجد فصل فيه ركعتين ، ثم قل: اللهم ، إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله عليه وآله وسلم نبي الرحمة يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك عز وجل فيقضي لي حاجتي ، وتذكر حاجتك ، ورح إلي حتى أروح معك ، فانطلق الرجل ، فصنع ما قال له عثمان ، ثم أتى باب عثمان ، فجاء البواب حتى أخذ بيده ، فأدخله على عثمان بن عفان ، فأجلسه معه على الطنفسة ، وقال: حاجتك؟ فذكر حاجته ، فقضاها له."
(باب الطا،من اسمه طاھر،ج:1،ص:306،ط:المکتب الإسلامی-بیروت)
الشفا بتعريف حقوق المصطفى میں ہے:
"قال أبو حميد : ناظر أبو جعفر أمير المؤمنين مالكا في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم...وقال: يا أبا عبد الله أستقبل القبلة وأدعو أم أستقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم» فقال: «ولم تصرف وجهك عنه وهو وسيلتك ووسيلة أبيك آدم عليه السلام إلى الله تعالى يوم القيامةبل استقبله واستشفع به فيشفعه الله."
(القسم الثاني،الباب الثالث، الفصل الثالث حرمته وتوقيره صلى الله عليه وسلم،ج:2،ص:92،ط:دار الفیحاء- عمان )
إحياء علوم الدين میں ہے:
"اللهم إنا قد سمعنا قولك وأطعنا أمرك وقصدنا نبيك متشفعين به إليك في ذنوبنا وما أثقل ظهورنا من أوزارنا تائبين من زللنا معترفين بخطايانا وتقصيرنا فتب اللهم علينا وشفع نبيك هذا فينا وارفعنا بمنزلته عندك وحقه عليك."
(كتاب أسرار الحج،الباب الثاني،الجملة العاشرة في زيارة المدينة وآدابها،ج:1،ص:259،ط:دار المعرفة)
فتح القدير میں ہے:
"ثم يسأل النبي صلى الله عليه وسلم الشفاعة فيقول. يا رسول الله أسألك الشفاعة، يا رسول الله أسألك الشفاعة وأتوسل بك إلى الله في أن أموت مسلما على ملتك وسنتك، ويذكر كل ما كان من قبيل الاستعطاف والرفق به."
(کتاب الحج،مسائل منثورة ،ج:3،ص181،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100234
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن