بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت کی تقسیم میں تاخیر کرنے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کا بیس سال پہلے 2002 میں جب انتقال ہوا تو ان کے وارثین میں تین بیٹے، تین بیٹیاں اور ایک بیوہ تھیں۔ والد صاحب نے ترکہ میں جو مال چھوڑا تھا اس میں پندرہ سو گز کا ایک گھر بھی تھا جس کا2007 میں بیچنے کا طے پایا ، اور تمام وارثین کی رضامندی سے بیچ دیا گیا، تاہم چونکہ تمام معاملات والدہ کے ساتھ ایک ہی بھائی، (وارثین کو معلوم ہے کس کی بات ہو رہی ہے، مصلحتاً نام اور رتبہ بیان نہیں کیا جا رہا) دیکھ رہے تھے تو ان کی طرف سے بیان کیے گۓ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوۓ کسی بھی وارث بمعہ دو بھائی، تین بہنیں اور والدہ کسی کو بھی مکمل حصہ نہیں دیا گیا اور بہنوں نے اپنی رضامندی سے ذمہ دار کو مہلت دی کے ، آپ ضروری معاملات سیدھے کریں اور باقی جو وراثت کا مال ہے جب اس کے معاملات طے پائیں گے تو اس گھر کا حصہ بھی تب ہی دے دیجیئے گا۔ اب معاملات کو چونکہ پندرہ سال گزر گۓ ہیں اور باقی وراثت کا بٹوارا نہیں کیا گیا تو اب بہنوں اور ان کے وارثین کا تمام بھائیوں سمیت مجھ سے یہ مطالبہ ہے کے آپ اس زمین کی موجودہ مالیت کے حساب سے ادائیگی کریں، جو کے اس وقت پینتیس لاکھ بن رہی تھی تو اب دو کروڑ بنتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ نہ تو گھر کے بکنے کے معاملات میں دیکھ رہا تھا نہ بہنوں نے مجھے مہلت دی تھی نہ گھر بکنے کی صورت میں جو رقم آئی تھی اس کو میں اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا تھا اور نہ ہی مجھے مکمل طور پر یہ علم ہے کے آنے والی رقم کہاں خرچ ہوئی، اس تمام صورتِحال کو دیکھتے ہوئے میری رہنمائی کی جاۓ کے کیا میری بہنوں کا یہ مطالبہ درست ہے اور کیا میں اس گھر سے آنے والی رقم کو بہنوں میں تقسیم کرنے کا مکلف تھا جبکہ بہنوں نے خود ایک وارث کے حوالے تمام معاملات کر دیئے تھے ؟ جب کہ میں خود اپنے حصے میں آنے والی رقم مکمل طور پر ذمہ دار سے وصول نہیں کر سکا تھا؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب وراثت کا گھر بکنے کے بعد بہنوں نے ایک بھائی کو وراثت تقسیم کرنے میں مہلت دی اور اب وہ بھائی بہنوں کو ان کا حصہ نہیں دے رہا اور سائل کا اس معاملہ میں کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور نہ ہی سائل نے بہنوں کے حصہ کی رقم سے کسی قسم کا  فائدہ اٹھایا تو پھر بہنوں کا سائل سے حصہ کا موجودہ قیمت کے اعتبار سے مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

حصہ کی ادائیگی کا ذمہ دار وہ ہی بھائی ہے جس کے پاس ورثہ کی ساری رقم تھی۔رہا یہ سوال کہ وہ بھائی پرانی قیمت یعنی پینتیس لاکھ کے حساب سے ورثاء کو ادائیگی کرے گا یا نئی قیمت کے اعتبار سے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس بھائی نے یہ رقم اپنے ذاتی اخراجات میں خرچ کردی اور وہ رقم ختم ہوگئی تو پھر وہ بھائی صرف اسی رقم کا ضامن ہے جتنی رقم اس نے استعمال کی یعنی پینتیس لاکھ روپے۔ اور اگر اس بھائی نے اس رقم سے دوسری زمین خریدی یا کسی اور تجارتی امور میں یہ رقم لگائی تو پھر جتنا نفع اس رقم کو تجارت میں لگا کر حاصل ہوا ہے  وہ سب ورثاء میں ان کے  حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ نیز مذکورہ بھائی کو چاہیے کہ وہ ٹال مٹول سے کام نہ لے جلد بہنوں اور دیگر بھائیوں کو ان کا حصہ ادا کردے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں سخت گناہ گار ہوگا۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «من قطع ميراث ‌وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."

(باب الوصایا ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۰۴۰، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں