بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت پر قبضہ کرنا ناجائز ہے


سوال

میں بیوہ خاتون ہوں ، میرا بڑا بیٹا 18/  19 سال سے وراثت پر قابض ہے نہ تو مجھے دوائی کے پیسے دیتا ہے، نہ ہی میرے اپنے پیسے تقاضے کے باوجود  دیتا ہے جو اس کے پاس امانت ہے۔

 میرے مرحوم شوہر کی دکان جو میرے نام پر ہونے کی وجہ سے اس کی فائل میرے پاس تھی،  مجھ سے جھوٹ بول کر لے گیا کہ کے ایم سی والے توڑنے کے لئے آئے ہیں،  اس کے چند روز بعد  مجھے اپنے ساتھ رجسٹرار کے دفتر لے گیا،   میں  چوں کہ پڑھی لکھی نہیں ہو ں، مجھ  سے اس نے کہا کے اندر آپ سے پوچھے تو کہنا کہ میں بیٹے کو تحفہ کے طور پر دے رہی ہوں،   میں نے کہا کہ یہ تو وراثت کی جائیداد ہے تو اس نے کہا کہ بعد میں میں سب سنبھال لوں گا،  اور یوں دکان اپنے نام کرا لی۔

جب کہ میرا چھوٹا بیٹا اپنے باپ کے ساتھ دکان پر بیٹھتا تھا تو چھوٹے بیٹے سے اس نے زبردستی دکان خالی کروائی کہ یہ دکان کا کرایہ 12000 دے دیتا ہے تو میں 15000 کرایہ  دوں گا ، یوں میرے چھوٹے بیٹے سے اس نے  دوکان خالی کرلی ، اور صرف 2 سے 3 ماہ کرایہ دیا اور اس کے بعد کرایہ  نہیں دیا۔

1۔ دیگر ورثاء  کے علم میں لائے بغیر دوکان دھوکے سےاپنے نام کرانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

2۔ اب میرا بیٹا 18 / 19 سال سے  ورثاء کو دوکان کا کرایہ نہیں دے رہا ہے  تو کیا یہ عہد شکنی ہے ؟

3۔ نیز میری دوائی کے پیسے نہ دے کر کیا وہ  ماں کا حق ادا کر رہا ہے یا نہیں؟ اور میری امانت رکھی  رقم  نہ لوٹانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ صاحب حق کے حق پر قبضہ کرنا اور اسے حق کی وصلی سے محروم کردینا حرام ہے، ایسا کرنے والے افراد کے بارے میں احادیث میں  سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں، جیساکہ صحیح مسلم میں ہے:

" عن ‌سعيد بن زيد قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: « من أخذ شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين »."

(كتاب البيوع، باب تحريم الظلم وغصب الأرض وغيرها، رقم الحديث: ١٦١٠، ط: دار الطباعة العامرة - تركيا)

ترجمہ:" حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایک بالشت برابر زمین ظلم سے لے لے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو سات زمینوں کا طوق پہنا دے گا"۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر  کی وفات کے وقت  جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ان کی ملکیت میں تھی، ان کی وفات کے بعد   اسے مرحوم کے تمام شرعی ورثاء کے درمیان حصص شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کرنا شرعًا  ضروری ہوگا، کسی ایک یا چند  وارثین کے  لیے اس پر قبضہ کرنا جائز نہ ہوگا، نیز مرحوم کے ترکہ میں شامل  دوکانوں  پر بڑے بیٹے کا قبضہ کرنے کے بعد انہیں اپنے  نام  پر منتقل کرانے کے باوجود مذکورہ دوکانوں پر سائلہ کے مذکورہ بیٹے  کی ملکیت شرعا ثابت نہ ہوگی، اس کے نام پر منتقل ہوجانے کے بعد بھی مذکورہ دوکانوں  کو حصص شرعیہ کے تناسب سے تمام ورثاء میں تقسیم کرنا واجب ہوگا، نیز ترکہ کی دوکان کا 18 / 19 سالوں کا کرایہ بھی دینا ضروری ہوگا، نیز والد کے ترکہ کی دونوں دوکانوں  سے مذکورہ بیٹے نے اب تک جو کچھ کمایا ہے، اس کا مکمل حساب کرکے دیگر ورثاء  میں حصص شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کرنا شرعًا ضروری ہوگا۔

شرح مشكل الآثار للطحاوي میں ہے:

"٢٨٢٣ - وكما حدثنا الربيع بن سليمان بن داود قال: حدثنا أصبغ بن الفرج قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا عبد الملك بن الحسن، عن عبد الرحمن بن أبي سعيد، عن عمارة بن حارثة، عن عمرو بن يثربي قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " لا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه " قال: قلت يا رسول الله , إن لقيت غنم ابن عمي آخذ منها شيئا؟ فقال: " إن لقيتها تحمل شفرة , وأزنادا بخبت الجميش فلا تهجها " -

قال أبو جعفر: ففيما روينا إثبات تحريم مال المسلم على المسلم."

( باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الضيافة من إيجابه إياها ومما سوى ذلك، ٧ / ٢٥٢، ط: مؤسسة الرسالة )

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"[(المادة ١٠٧٣) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك]

تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما."

(الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ٣ / ٢٦، ط: دار الجيل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و أما حكمه فالإثم و المغرم عند العلم و إن كان بدون العلم بأن ظن أن المأخوذ ماله أو اشترى عينًا ثم ظهر استحقاقه فالمغرم و يجب على الغاصب رد عينه على المالك و إن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليًّا كالمكيل و الموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - و قال أبو يوسف -رحمه الله تعالى -: يوم الغصب و قال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع، كذا في الكافي.

و إن غصب ما لا مثل له فعليه قيمة يوم الغصب بالإجماع، كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الغصب، ‌‌الباب الأول في تفسير الغصب وشرطه وحكمه، ٥ / ١١٩، ط: دار الفكر)

2۔ بڑے بیٹے کی جانب سے ایسا کرنا عہد شکنی اور ناجائز ہے۔

3۔ اللہ  رب العزت نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائے ہے، نیز رسول  اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے والدین سے بدسلوکی  پر سخت وعیدات سنائی ہیں، لہذا سائلہ کے بڑے بیٹے کا رویہ نہایت بدترین ہے، اسی طرح سائلہ کی رقم ہتھیانا اور تقاضے کے باوجود واپس نہ کرنا بھی ناجائز ہے، کیوں کہ اللہ رب العزت نے امانت صاحب حق کے سپرد کرنے کا تاکیدی حکم قرآن مجید میں نازل فرمایا ہے؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" فَلْیُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَه وَلْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه." (بقرة: ۲۸۳)

ترجمہ: "تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے ۔"

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

٤٠٤٥- أخبرنا أبو الخير جامع بن أحمد الوكيل، أخبرنا أبو طاهر المحمداباذي، حدثنا عثمان بن سعيد، حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا أبو هلال، عن قتادة، عن أنس قال خطبنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: "لا إيمان لمن لا أمانة له ولا دين لمن لا عهد له."

(الثاني والثلاثون من شعب الإيمان وهو باب في الإيفاء بالعقود، ٦ / ١٩٦ - ١٩٧، ط: مكتبة الرشد)

ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا کہ: " جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔"

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه ، كذا في الشمني .الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق ".

(کتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها،  ٤ / ٣٣٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101800

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں