والد صاحب نے اپنی زندگی میں ایک مکان خریدا تھا ، پھر ان کا 2012 میں انتقال ہوگیا ،اس کے بعد 3 یا 4 ماہ تک وہ مکان کرایہ پر رہا ، اس کے بعد سے اب تک خالی پڑا ہوا ہے ، میرے پاس جب کبھی تھوڑے بہت پیسے ہوتے ہیں تو اس کی مرمت اور توسیع پر لگا دیتا ہوں ، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس مکان میں زکات ہوگی یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں والد صاحب کی میراث میں حاصل شدہ مکان کی مالیت پر زکاۃ نہیں ہے،البتہ اگر وارث صرف سائل ہی ہو اور سائل صاحبِ نصاب ہو ، اور مذکورہ مکان کرایہ پر دیا جائے ،اور کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم نصاب کے بقدر ہوجائے، جمع رہے یا دیگر مال ِ نصاب کے ساتھ مل کر زکات کے نصاب کے برابر پہنچ جائے،تو دیگر اموالِ زکوٰ ۃ کے ساتھ جو رقم موجود ہو گی اس پر بھی زکوۃ واجب ہو گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة."
( كتاب الزكاة، مسائل شتي في الزكاة، ج:1، ص:180، ط:دارالفكر)
وفيه ايضاً:
"(ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه."
"(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية."
( كتاب الزكاة، الباب الأول في تتفسير الزكاة و صفتها و شرائطها، ج:1، ص: 172/175، ط:دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309101425
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن