بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت کی تقسیم


سوال

میرے خالو کا انتقال ہوا ہے،ان کی کوئی اولاد نہیں ہے،اور نہ ہی ان کے والدین زندہ ہیں،ان کی دو بیویاں ہیں،دو بہنیں ہیں اور تین بھائی ہیں،اور دو گھر ہیں جو ایک پہلی بیوی کے نام ہے، اور دوسرا دوسری بیوی کے نام ہے،اس کے علاوہ ایک موٹر سائیکل ہے، ایک گاڑی ہے ،اور کچھ زمین، وراثت کا حق دار کون کون ہے ؟ وراثت کی تقسیم کس طرح ہو گی؟ کیا یہ دونوں گھر بھی وراثت میں شامل ہوں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اسے اداکرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کر رکھی ہو،تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد،باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 32 حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک بیوہ کو 4 حصے،بہنوں میں سےہر ایک بہن کو 3 حصے،بھائی میں سے ہر ایک بھائی کو 6 حصے ملیں گے۔

صورت ِ تقسیم یہ ہے:

میت:4/ 32۔۔خالو

بیوہبیوہبھائیبھائیبھائیبہنبہن
13
4466633

یعنی فیصد کے اعتبار سے ہر ایک بیوه کو 12.5فیصد، ہر ایک بھائی کو 18.75ملے گا،اورہر ایک بہن کو 9.37 فیصد  ملے گا۔

سائل کے خالو نے ایک ،ایک گھر ایک،ایک بیوی کے نام کردیا تھا،اگر مرحوم نے دونوں بیواؤں کو ان کے نام کیا جانے والا گھر  مالکانہ حقوق کےساتھ ان کے قبضہ میں دے دیا تھا،تو ان میں وراثت جاری نہیں ہوگی،لیکن اگر صرف بیویوں کے نام کیا تھا،مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ نہیں دیا تھا،تو یہ گھر بیویوں کے شمار نہیں ہوں گے،بلکہ مرحوم خالو کے ترکہ میں شمار ہوکر ان کے تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوں گے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض."

(كتاب الهبة،الباب الأول تفسير الهبة وركنها،ص:374،ص:4،ط:رشيديه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144311100567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں