بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت کے احکام


سوال

میرے ابو اور پھوپھی کی خالہ خالو نے ان کی پرورش کی ہے کیونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ابو کی خالہ کا ایک مکان ہے جس میں وہ رہتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم لوگ جب مرجائیں گے تو یہ مکان میرے ابواورپھوپھی کا آدھا آدھا ہوجائے گا۔ میری پھوپھی ابھی انہی کے ساتھ رہتی ہیں۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ انہوں نے کاغذات میں ابو اور پھوپھی کے نام کردیاہے ۔لیکن اس ڈر سے کہ وہ بے اولاد ہیں اور کہیں ابو انہیں گھر سے نہ نکال دیں وہ کاغذات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔میں نے انہیں بہت سمجھا یا کہ ابو وارث نہیں ہیں اور آپ نے اگر دینا ہے تو کاغذات اور قبضہ دیدیں ورنہ سب گناہ گار ہوجائیں گے لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ابو اور فیملی ملک سے باہر رہتے ہیں اس لیے ہم لوگ اس مکان میں نہیں رہتے ،اگر وہ کاغذات دیدیں لیکن یہ شرط رکھیں کہ تم موت تک اس مکان سے نہیں نکال سکتے تو کیا حکم ہو گا؟اور اگر کاغذات ان کے مرنے کے بعد ہمارے ہاتھ لگیں تو کیا حکم ہوگا ؟اگر انہوں نے صرف وصیت نامہ لکھا ہو کہ یہ گھر ابو اور پھوپھی کو دیتی ہوں تو کیا حکم ہے ؟خالہ خالو کے بہن بھائی زندہ ہیں برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

صورت مسئولہ کے مطابق مذکورہ مکان تاحال ابوکی خالہ کی ملکیت ہےاور خالہ نے جو کچھ کاغذی کاروائی کی ہے اس کی حیثیت وصیت کی ہے۔ اس لیےخالہ کے انتقال کے بعد مکان کا فیصلہ وصیت کے احکام کے مطابق ہوگا۔ اگر خالہ اپنی زندگی ہی میں کاغذات آپ کے حوالے کردے مگر شرعی شرائط کے مطابق آپ کے والد اور پھوپھی کے حق گفٹ نہ کرے تو بھی مکان خالہ کی ملکیت رہیگا اور بعد از مرگ اس پر وصیت کے احکام جاری ہوں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں