بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

وراثت کی تقسیم میں کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص وفات پا چکا ہے اورانہوں نے اپنے بہنوں کا حصہ نہیں دیا۔ اب چونکہ بہنیں بھی وفات پا چکی ہیں ۔اور اس شخص نے اپنی زندگی میں جائیداد کا کچھ حصہ بھی فروخت کردیا تھا۔اب متوفی کا بیٹا اپنی پھوپھیوں کا حصہ دینا چاہتا ہے ۔ موجودہ جائیداد سے تو حصہ دے چکا ہے لیکن جو جائیداد والد نے اپنی زندگی میں فروخت کی ہے ۔ تو اب اس صورت میں فروخت شدہ جائیداد کا حساب موجودہ قیمت کے لحاظ سے ہوگا یا اس وقت کے حساب سے ۔ یعنی اس فروخت شدہ جائیداد میں پھوپھیوں کو سابقہ قیمت کے لحاظ سے حصہ دینا ہوگا یا موجودہ قیمت کا لحاظ رکھا جائے گا.

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو جائیداد موجود ہے، اس کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے تقسیم کی جائے گی اور جو جائیداد ایک وارث نے بیچ دی تھی اس کی حاصل شدہ قیمت میں دیگر ورثاء کا جتنا حصہ بنتا تھا وہ انہیں دیا جائے گا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لو تصرف أحد الورثة في التركة المشتركة وربح ‌فالربح ‌للمتصرف وحده، كذا في الفتاوى الغياثية."

(الفتاوى الهندية، كتاب الشركة، الباب السادس،  346/2،  رشيدية)

"دررالحکام" میں ہے:

"المادة (1090) - (إذا أخذ الورثة مقدارا من النقود من التركة قبل القسمة بدون إذن الآخرين وعمل فيه فخساره يعود عليه، كما أنه لو ربح لا يأخذ الورثة حصة فيه) إذا تصرف أحد بلا إذن في مال الغير وربح يكون الربح له، ويتفرع عن ذلك مسائل عديدة: المسألة الأولى - إذا ‌أخذ ‌أحد ‌الورثة مقدارا من النقود من التركة قبل القسمة بدون إذن الآخرين أو إذن الوصي إذا كان الورثة صغارا فكما أن الضرر يعود عليه ويأخذ الورثة حصتهم في رأس المال فقط كذلك لو ربح فلا يأخذ الورثة حصة من الربح..... مثلا لو أخذ أحد الورثة من تركة مورثه بدون إذنهم مائة دينار وباع واشترى بها فربح خمسين دينارا فتكون الخمسون دينارا له وليس للورثة الآخرين الاشتراك في هذا الربح ويكون ذلك الوارث ضامنا للورثة حصصهم في رأس المال كما أنه لو خسر في البيع والشراء تلك المائة الدينار كلا أو بعضا فيعود الخسار المذكور عليه ويضمن حصص الورثة الآخرين."

(درر الحكام شرح مجلة الاحكام لعلي حيدر، 51/3، دارالجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں