بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ولايت علی المال اور گريجويٹي فنڈ كا حكم


سوال

1)ہمارے بہنوئی کا انتقال ہو گیا ،ورثاء میں والدہ،والد ،بیوہ،دو بیٹیاں (عمر چھ ماہ کی اور دو سال کی)،دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ،ترکہ میں تین عدد پلاٹ ،بینک میں موجود رقم 10،51،000 روپے ،گریجوئٹی رقم (12،00،000 روپے)جو کہ سعودی اسکول سے ان کو ملی ہے اور ان کی بیوہ کے نام پر ہے،مرحوم کی وراثت کس طرح تقسیم ہو گی ؟

2)بیٹیوں کا جو حصہ بنتا ہے وہ کس کے پاس رہے گا ؟جب کہ بیٹیاں اپنی ماں کے پرورش میں ہیں ۔

3)گریجوئٹی رقم کسی کی ہو گی ؟

جواب

1)صورت مسئولہ میں سائلہ کے مرحوم بہنوئی  کے ترکہ کی تقسیم  کا شرعی طریقہ   یہ  ہے کہ مرحوم کے  حقوق  متقدمہ     یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو  27 حصوں میں تقسیم کر کے والد کو 4 حصے ،والدہ کو 4 حصے ،بیوہ کو 3 حصے ،ہر ایک بیٹی کو 8 حصے ملیں گے ۔

صورت تقسیم یہ ہے :

میت24 عول  27

بیوہوالدوالدہبیٹیبیٹی
34488

یعنی 100 فیصد میں والد کو 14.814 فیصد ،والدہ کو14.814 فیصد ،بیوہ کو 11.111  فیصد ،ہر ایک بیٹی کو 29.629 فیصد ملے گا ۔

2)والد کے انتقال کے بعد  یتیم بچوں کی جائیداد  کا ولی والد کا وصی  ہےیعنی وہ شخص جس کے متعلق والد نے اپنے بچوں کی کفالت کے بارے وصیت کی ہو اور اگر کوئی وصی نہ ہو تو پھر یہ حق دادا  پھر اس کے وصی اور پھر قاضی کا ہے اور قاضی نہ ہونے کی صورت میں جس کو معتبر لوگ متولی بنادیں وہی قاضی کے قائم مقام ہوگا  ،لہذا صورت مسئولہ میں اگر والد نے کسی شخص کو اپنا وصی بنایا تھا وہ یتیم بچوں کی جائیداد کا کفیل ہو گا ورنہ یہ حق دادا کو حاصل ہے ،بچیاں اگر والدہ کی پرورش میں ہے تب بھی بچیوں کے اموال کی حفاظت اور اموال کو ان کی ضروریات پر خرچ کرنے کی ذمہ داری دادا کی ہے ،اور دادا کو یہ ذمہ داری دیانت کے ساتھ ادا کرنی  ہو گی ،اگر دادا اس ذمہ داری کو نہیں نباہ سکتا ہے تو وہ کسی کو اپنی طرف سے مقرر کریں جو اس ذمہ داری کو ادا کریں ۔

3)گریجویٹی فنڈ سے مراد وہ رقم ہے جوملازم کے استعفی یا برطرفی یا انتقال کے فوراً  بعد اس کےساتھ تعاون کے طور پر متعلقہ   ادارہ کی جانب  سے اس کو یا اس کےبعد اس کے  لواحقین کو دی جاتی ہے ،اس کا حکم یہ ہے کہ یہ متعلقہ ادارہ کی  جانب  سے عطیہ اور تبرع ہوتی ہے، ادارہ  جس کے نام پر جاری کرے وہی اس کا مالک ہوتا ہےلہٰذا صورت مسئولہ میں  جب   مذکورہ فنڈ   مرحومکی بیوہ کے نام پر جاری ہواہے تو وہ  صرف اس کی بیوہ کا ہی حق ہے ،کسی اور وارث کا اس میں کوئی حق نہیں  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لا المال) فإنه الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه فقط"

(کتاب النکاح ،باب الولی،ج:3،ص:76،ط:سعید)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"الهدية هي المال الذي يعطي لاحد او يرسل اليه اكراماّ له"

(الکتاب السابع فی الھبۃ،المادۃ834،ج1۔ص366،ط:رشیدیہ)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے‘‘۔

(کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، 4/343،ط: دارالعلوم)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں