بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ولادت کے بعد مستقل خون آنے کی صورت میں روزے کا حکم


سوال

میری بیٹی کی پیدائش کے بعد سے  مجھے مستقل مینسز آرہے  ہیں،  تقریباً سوا سال ہوگیا ہے،  قطروں کی صورت رہتی ہے،  کوئی پیڈ استعمال نہیں کرنا پڑتا،  علاج بھی کروایا،  ڈاکٹر ہارمونز پرابلم بتا تے ہیں،  پوچھنا یہ ہے  کہ اس صورت  میں نماز کا کیا حکم ہے، اگر عادت کو دیکھیں تو میرے کوئی عادی ایام کبھی نہیں  رہے،   12 سال  کی عمر سے یہ مسئلہ  رہا ہے،  کبھی  2  ماہ بعد کبھی ڈھائی ماہ بعد،  لیکن اس دفعہ مسئلہ یہ ہے کہ مستقل سوا سال سے ہیں،   میں رمضان کے روزوں کی وجہ  سے بہت پریشان ہوں!

جواب

اگر آپ کے  ہاں پہلی ولادت ہو  اور نفاس کا خون چالیس دن مکمل ہونے پر بھی بند نہ ہوا تو اس صورت میں چالیس دن تو نفاس کے شمار ہوں گے اور اس سے زائد ایام استحاضہ کی شمار ہوں گے، غسل کے بعد ان ایام کی ہر نماز کے وقت کے لیے استنجا  کرنے کے بعد با وضو ہو کر نماز ادا کرنا لازم ہوگا، اور آپ روزہ بھی  رکھیں گی۔

اور اگرنفاس کا خون چالیس دن سے بڑھ جائے  اور آپ کی اس سے  پہلے بھی بچے کی ولادت ہوئی ہے  تو اس صورت میں اس سے پہلے بچہ کی پیدائش کے موقع پر  جتنے دن خون آنے عادت ہے  اتنے دن کا خون نفاس شمار ہوگا اور باقی بیماری کا خون شمار ہوگا۔ان باقی دنوں میں رہ گئی نمازوں کی بھی قضا کرنی ہوگی، اور روزے جو چھوٹ گئے ہیں وہ بھی رکھنے ہیں۔

پھر ان چالیس دن کے بعد اگر آپ کو مستقل خون جاری رہتا ہے  تو آپ کی حمل سے پہلے والے مہینے میں جتنی حیض کے ایام کی عادت تھی   ہر مہینے  میں اتنے دن آپ کے حیض کے شمار ہوں گے ، ان میں نماز اور روزہ ادا نہیں کریں گی، اور  باقی  دن استحاضہ کے شمار ہوں گے ، اس  میں نماز اور روزہ رکھنا لازم ہوگا۔

اب ترتیب یوں ہوگی ولادت کے  بعد نفاس کے ایام گزرنے  کے بعد پہلے پاکی کے ایام ہوں گے اور  اس کے بعد مہینہ میں جتنے دن حیض کی عادت تھی وہ حیض کے ہوں گے، پھر ہر مہینہ یہی ترتیب رہے گی۔

اور اگر بالغ ہونے کے بعد سے ہی خون جاری ہو تو  پھر نفاس کے ایام کے بعد بیس دن پاکی کے اور دس دن حیض کے شمار ہوں گے اور پھر ہر مہینہ اسی طرح ترتیب رہے گی۔

اور استحاضہ کے دنوں میں آپ کا حکم شرعی معذور کا ہوگا،یعنی ہر  نماز کے وقت  کے لیے ایک وضو کرلیں اور  دوسری نماز کا وقت آنے  تک اسی وضو سے جتنی چاہے نمازیں خواہ فرض ہو یا نفل پڑھ سکتی ہے،اسی طرح تلاوت،ذکر اذکار، طواف وغیرہ کر سکتی ہے۔ ہاں اگر وضو اس خون والے عذر کے علاوہ کسی اور وجہ سے ٹوٹا ہوتو دوبارہ وضو کرنا ہوگا،نیز  عادت کے ایام کے علاوہ بقیہ دنوں میں مستحاضہ عورت  رمضان کے روزے رکھے گی، اسی طرح قضا روزے اور دوسری عبادات بھی معمول کے مطابق کرسکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 286):

"إذا وقع في المبتدأة فحيضها من أول الاستمرار عشرة وطهرها عشرون، ثم ذلك دأبها ونفاسها أربعون ثم عشرون طهرها إذ لا يتوالى نفاس وحيض، ثم عشرة حيضها ثم ذلك دأبها، وإن وقع في المعتادة فطهرها وحيضها ما اعتادت في جميع الأحكام إن كان طهرها أقل من ستة أشهر."

و فیه أیضًا (1/ 294):

"(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوباً بل ندباً. (وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطاً؛ وإن لعادتها، فإن كتابيةً حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه (أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب (والتحريمة) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها.

 (قوله: إذا انقطع حيضها لأكثره) مثله النفاس، وحل الوطء بعد الأكثر ليس بمتوقف على انقطاع الدم صرح به في العناية والنهاية وغيرهما، وإنما ذكره ليبني عليه ما بعده قال ط: ويؤخذ منه جواز الوطء حال نزول دم الاستحاضة اهـ وقدمنا عن البحر أنه يجوز الاستمتاع بما بين السرة والركبة بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دماً. اهـ وهذا في الحائض، فيدل على جواز وطء المستحاضة وإن تلطخ دماً وسيأتي ما يؤيده فافهم (قوله: وجوباً) منصوب بعامل محذوف أي بلا غسل يجب وجوباً، ومثله قوله: بل ندباً (قوله: بل ندباً) ؛ لأن قراءة {حتى يطهرن} [البقرة: 222] بالتشديد تقتضي حرمة الوطء إلى غاية الاغتسال فحملناها على ما إذا كان أيامها أقل من عشرة دفعاً للتعارض بين القراءتين، فظاهره يورث شبهة، فلهذا لايستحب، نوح عن الكافي.

(قوله: لدون أقله) أي أقل الحيض وهو ثلاثة أيام (قوله: في آخر الوقت) أي وجوباً، بركوي، والمراد آخر الوقت المستحب دون المكروه كما هو ظاهر سياق كلام الدرر وصدر الشريعة. قال ط: وأهمل الشارح حكم الجماع، ويظهر عدم حله بدليل مسألة الانقطاع على الأقل وهو دون العادة.

قلت: قد يفرق بين تحقق الحيض وعدمه، وانظر ما نذكره قبيل قوله: والنفاس لأم التوأمين (قوله: وإن ولأقله) اللام بمعنى بعد ط (قوله: لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب، بحر (قوله: وتغتسل وتصلي) أي في آخر الوقت المستحب، وتأخيره إليه واجب هنا أما في صورة الانقطاع لتمام العادة فإنه مستحب، كما في النهاية والبدائع وغيرهما (قوله: احتياطاً) علة للأفعال الثلاثة (قوله: وإن لعادتها) وكذا لو كانت مبتدأةً، درر (قوله: حل في الحال) ؛ لأنه لا اغتسال عليها لعدم الخطاب، فإن أسلمت بعد الانقطاع لاتتغير الأحكام، وتمامه في البحر (قوله: حتى تغتسل) قد علمت أنه يستحب لها تأخيره إلى آخر الوقت المستحب دون المكروه.

قال في المسبوط: نص عليه محمد في الأصل. قال: إذا انقطع في وقت العشاء تؤخر إلى وقت يمكنها أن تغتسل فيه وتصلي قبل انتصاف الليل، وما بعد نصف الليل مكروه، بحر."

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں