بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکالت کا پیشہ


سوال

 ایک شخص وکیل بننے کا خواہاں ہے، اس کا وکیل بننا شرعًا کیسا ہے؟ اور بعدہ کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟

جواب

اگر کوئی شخص وکالت کو پیشہ بنانا چاہے تو اس کو چاہیے کہ  کبھی کسی ناجائز  بات اور ناحق شخص کے لیے وکالت نہ کرے، اور اپنی صلاحیت سے  ناحق کو ثابت نہ کرے، جھوٹ، دھوکا  اور رشوت کا سہارا نہ لے؛ لہذا بہت احتیاط سے کسی معاملہ کی ذمہ داری لے۔ نیز  اس پیشہ کے اختیار کرنے میں  مظلوم افراد کی مدد کی نیت کرے۔ ان شرائط کے ساتھ  یہ پیشہ اختیار کرنا جائز ہے۔

الفتاوى الهندية (3/ 564):

"ويجوز التوكيل بالبياعات والأشربة والإجارات والنكاح والطلاق والعتاق والخلع والصلح والإعارة والاستعارة والهبة والصدقة والإيداع وقبض الحقوق والخصومات وتقاضي الديون والرهن والارتهان، كذا في الذخيرة."

الفتاوى الهندية (3/ 616):

"والوكيل بطلب الشفعة والرد بالعيب والقسمة وكيل بالخصومة بالإجماع، كذا في الحاوي. حتى أن الوكيل يأخذ الشفعة وإذا ادعى المشتري أن الموكل سلم الشفعة وأقام البينة على الوكيل بأن الموكل سلمها تقبل وكذا المشتري لو وجد بالمبيع عيبًا فوكل رجلًا بالرد، فقال البائع: قد رضي المشتري بالعيب وأنكر الوكيل، فأقام البائع البينة على الرضا تقبل، وكذا الوكيل باسترجاع الهبة إذا أقام الموهوب له البينة على أن الواهب أخذ عوضًا أو على أن الهبة زادت قبلت، وكذا الوكيل بالقسمة إذا قال أحد الشريكين وهو الذي لم يوكل: إن شريكي قد استوفى نصيبه وأنكر الوكيل فأقام الشريك البينة على الاستيفاء تقبل، هكذا في السراج الوهاج."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں