بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویزہ خریدنے کے بعد ریال کی قیمت بڑھ گئی تو ادائیگی میں کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟


سوال

میں 2016ء میں سعودیہ گیا، وہاں ماموں سے ساڑھے اٹھارہ ہزار ریال میں ویزہ خریدا، اُس وقت ریال کی پاکستانی قیمت 27 روپے تھی، میں نےکچھ رقم ادا کی تھی، اور ابھی کچھ باقی ہے، ماموں کہہ رہے کہ تم مجھے ریال کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے ادائیگی کرو گے،اِس وقت ریال کی قیمت  تقریباً 75 روپے ہے، پوچھنا یہ میں ذمہ کس قیمت کے اعتبار سے ادائیگی واجب ہے؟ 2016ء  کی قیمت کے اعتبار سے یا آج کی قیمت کے اعتبار سے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  چونکہ سائل نے اپنے ماموں سے ویزہ خریدتے وقت قیمت ریال کی صورت میں طے کی تھی، پاکستانی روپوں کی صورت میں طے نہیں کی تھی، تو ادائیگی بھی ریال کی صورت میں کرنا ضروری ہے، یعنی سائل پر ساڑھے اٹھارہ ہزار ریال کی ادائیگی واجب ہے،ریال کی قیمت کم ہو یا بڑھے،البتہ اگر    سائل کے ماموں  پاکستانی کرنسی لینے پر راضی ہوں  تو سائل کے ذمے  بقیہ قرض کی ادائیگی ریال کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے پاکستانی کرنسی کی ادائیگی واجب ہے،لہذا سائل کے ماموں کا یہ مطالبہ درست  ہے کہ سائل ریال کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے بقیہ رقم کی ادائیگی کرے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه.

وقال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالي: وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه، وكذلك لو قال أقرضني عشرة دراهم غلة بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج:5، ص:162، ط:سعيد)

 "العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم و تصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟

(الجواب) : نعم و لاينظر إلى غلاء الدراهم و رخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".

(كتاب البيوع، باب الصرف،  ج:1،ص: 281، ط: دار المعرفة)

وفیه أیضاً :

«(سئل) فيما إذا استدان زيد من عمرو مبلغا معلوما من المصاري المعلومة العيار على سبيل القرض ثم رخصت المصاري ولم ينقطع مثلها وقد تصرف زيد بمصاري القرض ويريد رد مثلها فهل له ذلك؟

(الجواب) : الديون تقضى بأمثالها".

(كتاب البيوع، باب الصرف،  ج:1،ص: 281، ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں