بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت میں ملنے والی رقم پر زکاۃ کا حکم


سوال

مجھے وراثت  میں 21 لاکھ  42 ہزار روپے  2019کے اگست میں ملےہیں،  میں نے وہ رقم میزان بینک میں رکھوائی  ہے، اس پر کتنی زکاۃ ہو گی؟

جواب

اگر آپ وراثت میں ملنے والی اس رقم سے پہلے صاحبِ نصاب تھے، اس صورت میں اس رقم پر علیحدہ سے سال گزرنا شرط نہیں ہے، بلکہ اسلامی مہینوں کے اعتبار سے جس دن آپ زکاۃ نکالتے ہیں، اس دن اس رقم کو بھی مجموعی مال میں شامل کرکے اس وقت کل موجودہ مال کی زکاۃ نکالیں گے(جو رقم اس سے پہلے خرچ ہوگئی ہو اس کی زکاۃ لازم نہیں)۔

اور اگر آپ اس رقم کے ملنے سے پہلے صاحبِ نصاب نہیں تھے، بلکہ اس رقم کی وجہ سے صاحبِ نصاب بنے ہیں ، اور اس کے علاوہ آپ کے پاس سونا، چاندی ،مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد نقد رقم موجود نہیں تو اس صورت میں  اسلامی تاریخ کے لحاظ سے جس دن سال مکمل ہوگا اس دن اس رقم میں سے جو آپ کے پاس موجود ہوگی اس کی زکاۃ آپ کو نکالنی ہوگی، اور سال پورا ہونے پر اگر اس رقم کے ساتھ ساتھ  مزید نقد رقم، یا سونا چاندی موجود ہو تو اس کی بھی قیمت فروخت کا اعتبارکرکے اس کو بھی اس رقم کے ساتھ شامل کرکے مجموعی مال کی زکوۃ ادا کریں گے۔

شرعی اعتبار سے زکاۃ ڈھائی فیصد لازم ہے، 21لاکھ 42ہزار کی زکاۃ  53550 (ترپن ہزار پانچ سو پچاس) روپے بنتی ہے۔

یہاں دو باتیں مزید قابل توجہ ہیں :

1۔ میزان بینک یا  مروجہ غیر سودی بینکوں سے تمویلی معاملات کرنا، سیونگ اکاؤنٹ  وغیرہ کھلوانا جائز نہیں ہے، ملک کے اکثر جید اور مقتدر مفتیانِ کرام  کی رائے یہ ہے کہ  مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی  تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے۔ ضرورت پڑنے پر صرف ایسا اکاؤنٹ کھلوایا جاسکتا ہے جس میں منافع نہ ملتا ہو، مثلاً: کرنٹ اکاؤنٹ یا لاکرز وغیرہ۔لہذا اگر آپ نے میزان بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوائی ہے تو  میزان بینک میں رقم رکھوا کر نفع لینا جائز نہیں ہے۔ زکاۃ  آپ اصل رقم کی ہی ادا کریں گے۔

2۔ واضح رہے کہ زکات کے سال کا حساب قمری مہینے سے کرنا چاہیے، نہ کہ شمسی تاریخوں سے، اس لیے کہ شمسی سال قمری سال سے تقریباً   دس، گیارہ دن بڑا ہوتا ہے، تاریخ کی تبدیلی سے ملکیت میں موجود مالیت میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، نتیجتاً زکات کی مقررہ مقدار میں کمی بیشی کا امکان رہتاہے، جو ذمہ میں باقی رہ گئی تو مؤاخذہ ہوسکتاہے، لہذ  آپ اپنی زکات کے سال کے حساب کو قمری مہینوں کے اعتبار سے ڈھال لیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200797

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں