بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت کی تقسیم اور بھانجوں کا اپنے لیے وصیت کا دعوی کرنا


سوال

ایک آدمی کی وفات ہوئی،اب اس کی وراثت تقسیم کرنی ہے،   وراثت میں 24 کنال ملکیتی زمین موجود ہے، مرحوم کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ قریبی ورثاء میں ایک بیوہ،ایک بہن،ایک چچازاد بھائی موجود ہیں،  اور مرحوم کی وفات سے پہلے ایک بہن کا انتقال ہوا ہے ،  جس کی اولاد میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔وراثت ان میں کس طرح تقسیم ہوگی؟

جب کہ مرحوم کی وفات سے پہلے جس بہن کا انتقال ہوا ہے، اس کے دو بیٹے کچھ لوگوں کو بطورِ  گواہ لارہے ہیں کہ مرحوم نے وصیت کی  ہے  کہ میری جائیداد میں صرف 4 کنال بیوی کواور  باقی ساری جائیداد  مرحوم کی وفات سے پہلے فوت ہوئی بہن کے دو بیٹوں (یعنی بھانجوں )کو دی جائے۔  وصیت کی کوئی تحریر موجود نہیں ہے ،نہ ہی کوئی اور وارث گواہ ہے۔ اب  وراثت کی تقسیم  کیسے ہوگی ؟جب کہ سارے وارث بیوی،بہن اور چچازاد بھائی وصیت  کو رد کرتے ہیں اور گواہان  کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مرحوم کی کل جائیداد کو 4 حصوں میں تقسیم کیاجائےگا، جس میں سے ایک حصہ مرحوم کی بیوہ کو، دو حصے  مرحوم کی زندہ بہن کو ، اور ایک حصہ مرحوم کے  چچازاد  بھائی کو  دیا جائے گا، جب کہ مذکورہ  صورت میں مرحوم کے بھانجے اور بھانجیاں  مرحوم کی وراثت  میں شرعی طور پر حصہ دار نہیں ہیں۔

جہاں تک بھانجوں کی طرف  سے مرحوم کی جانب  بیوہ کے لیے چار کنال دینے کی وصیت کرنے کا دعویٰ  ہے، تو  وارث کے حق میں وصیت شرعاً نافذ العمل نہیں، لہذا میت کی اولا د کی غیرموجودگی  میں بیوہ کے لیے شوہر کے  مال میں  جو حصہ شریعت نے مقرر کیا ہے، یعنی (تجہیز و تکفین کے اخراجات نکال کر، میت پر قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ ترکے کے ایک تہائی سے ادا کرنے کے بعد) کل ترکے کا چوتھائی حصہ، وہ پورا بیوہ  کو دیا جائے گا،  اگر مرحوم نے یوں کہا بھی ہو کہ بیوہ کو صرف چار کنال زمین دی جائے،  اس  سے بھی بیوہ  کا بقیہ حصہ ساقط نہیں ہوگا۔

اور بھانجوں سے متعلق اگر مرحوم کی وصیت شرعی گواہوں کے ذریعے ثابت ہوجائے،  تب بھی انہیں  مرحوم کی کل جائیداد  میں سے ایک تہائی سے زیادہ حصہ نہیں دیا جائے گا،وصیت کے ثبوت (یعنی وصیت پر دو عادل گواہ موجود ہوں ) کی صورت میں بھانجوں کو کل مال میں سے صرف ایک تہائی دیا جائے گا،  باقی کل جائے داد   (منقولہ و غیر منقولہ) مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ورثاء (بیوہ ، بہن، چچازاد بھائی)میں تقسیم کردیا جائے گا۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 182):

"ثم تصح الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث، و لاتجوز بما زاد على الثلث".

الموسوعة الفقهية الكويتية (30/ 254):

"الوصية للأجنبي بما زاد عن الثلث . 

23 - اختلف الفقهاء في الوصية بالزائد على الثلث للأجنبي على قولين :

القول الأول : إن الوصية للأجنبي في القدر الزائد على الثلث تصح وتنعقد ، ولكنها تكون موقوفة على إجازة الورثة ، فإن لم يكن له ورثة نفذت دون حاجة إلى إجازة أحد ، وهذا هو مذهب الحنفية".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 385):

"وأما بيان حكم الوصية فالوصية في الأصل نوعان: وصية بالمال، ووصية بفعل متعلق بالمال لا يتحقق بدون المال، أما الوصية بالمال فحكمها ثبوت الملك في المال الموصى به للموصى له."

فقط و الله  اعلم


فتوی نمبر : 144211201710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں