بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت کی رقم سے لی گئی رقم واپس کرنے کا حکم


سوال

میرے ابو کا انتقال ہوچکا ہے،  ابو کے انتقال کے بعد میں نے وراثت کے پیسوں میں سے تقریباً 40,000 روپے لیے تھے ،جس کی خبر والدہ یا گھر کے کسی بھی فرد کو آج تک نہیں ہے، کیا یہ چوری کے پیسے ہوۓ؟ اس وقت کام کے مسائل تھے میں نے وہ رقم کام کی غرض سے لی تھی، ان میں سے کچھ پیسوں سے میں نے سمارٹ موبائل لیا اور کچھ پیسے دوسرے استعمال کے لیے رکھ لیےمیں نے آن لائن کام شروع کیا اور پچھلے دو سالوں سے میں گھر کا خرچہ اٹھا رہا ہوں۔میں وہ پیسے واپس کرنا چاہتا ہوں ۔

پوچھنا یہ ہے کہ وہ پیسے میں کس طرح واپس کروں گا ؟کیا سب کو بتانا پڑے گا کہ میں نے اس اس طرح سے پیسے لیے تھے وہ واپس کر رہا ہوں یا کسی بھی طرح دل میں نیت کر کے وہ پیسے گھر کے خرچے میں مشترکہ استعمال کر لیں؟ یا اب تک جو میں خرچہ اٹھا رہا ہوں کیا اس میں وہ پیسے ادا ہو گئے یا علیحدہ سے ان پیسوں کی نیت کر کے ادا کرنا ہوں گے؟

واضح رہے کہ وارثین میں صرف دادا، "ابو" کے فوت ہونے کے بعد علیحدہ یعنی چاچو کے ساتھ رہتے ہیں، باقی ہم سب وارثین کا خرچہ ایک گھر میں مشترکہ ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ وارثت کے  تمام مال  میں ہر ایک وارث شریک ہوتا ہے اس لیے سائل کا اپنے والد کے ترکہ سے دوسرے ورثاء کے اجازت کے بغیر رقم لینا اور اسے استعمال میں لانا ناجائز تھا، اب جب کہ سائل وہ رقم واپس کرنا چاہتا ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ ورثاء کو  ان کے حصے کے بقدر رقم ہدیہ کے نام سے دے دے تو اس سے وہ رقم ادا ہوجائے گی،نیز سائل نے اب تک جو گھر والوں پر خرچہ کیا ہے اس سے ترکہ میں سے لی گئی رقم منہا نہیں ہوسکتی۔

ہر وارث کا اس رقم میں حصے معلوم کرنے کے لیے والد مرحوم کے ورثاء کی تعداد لکھ کر دوبارہ جواب طلب کرسکتے ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(مشکوٰۃ المصابیح،باب الغصب والعاریۃ،ج:1،ص:261، ط: رحمانیہ)

قواعد الفقہ میں ہے:

"لا یجوز التصرف فی ملک الغیر  بغیر اذنہ۔"

(قواعد الفقہ، ج:1،ص:110،ط: صدف پبلشرز)

فتاوی شامی  میں ہے:

"والأصل أن المستحق بجهة إذا وصل إلى المستحق بجهة أخرى اعتبر واصلاً بجهة مستحقة إن وصل إليه من المستحق عليه وإلا فلا.

(قوله: إن المستحق بجهة) كالرد للفساد هنا، فإنه مستحق للبائع على المشتري، ومثله رد المغصوب على المغصوب منه. (قوله:بجهة أخرى) كالهبة ونحوها.(قوله:وإلا فلا) أي وإن لم يصل من جهة المستحق عليه، بل وصل من جهة غيره فلايعتبر."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 5، ص:92، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں