ایک لڑکے نے ون وھیلنگ کرتے ہوئے میرے بھائی کو شہید کردیا ہے ۔ لڑکے کےساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
ون وھیلنگ کرتے ہوئے جس نوجوان ڈرائیور نے سائل کے بھائی کو شہید کردیاہے ،یہ قتلِ خطا کے حکم میں ہے،اورقتلِ خطا میں کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوتی ہے،کفارے کے طور پر اس نوجوان ڈرائیور کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے، البتہ دیت کی ادائیگی اس ڈرائیور کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے۔ عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس ڈرائیور کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو، اگر ایسی کوئی جماعت ذمہ داری نہ لےتو یہ دیت اس لڑکے سے وصول کی جائے گی ، اور یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی، اور دیت کی مقدارجدید پیمانے کے اعتبار سے 30 کلو 618 گرام چاندی یا اس کی قیمت ہے،اگر مقتول کے ورثاء دیت میں کمی یامعاف کرناچاہیں تو انہیں اس کا اختیار ہے،تاہم کفارے کے روزے معاف کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے وہ بہر صورت لازم ہوں گے،اس کے علاوہ اس نوجوان کے ساتھ کوئی اور سلوک کرنا(مارناپیٹنا کوئی اور جسمانی سزادینا)درست نہیں ہے۔
ہدایہ میں ہے:
"(قال:ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما) لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه لأن القائد لا يقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".
(باب جناية البهيمة والجناية عليها ، ج : 4 ، ص :481 ، ط : دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے :
"ضمن الراكب في طريق العامة ما وطئت دابته وما أصابت بيدها أو رجلها أو رأسها أو كدمت) بفمها (أو خبطت) بيدها أو صدمت.
قوله ما وطئت دابته) أي من نفس أو مال در منتقى فتجب الدية عليه، وعلى عاقلته."
(باب جناية البھيمة والجناية عليها ، ج :6 ، ص : 603 ، ط : دار الفکر)
تکملۃ فتح الملہم میں ہے:
"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرك بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلك."
(کتاب الجناية ، احکام جنایة البھیمة ، ج : 2 ، ص : 523 ، ط : دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101460
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن