بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ویلفیئر کا انتظام سنبھالنے کے عوض چندہ سے اپنے لیے تنخواہ مقرر کرنا


سوال

ہمارا ایک ویلفیئر ادارہ ہے،  جس کا میں صدر ہوں اور ہمارے پاس زکات اور غیر زکات  دونوں طرح کے فنڈ آتے  ہیں اور اس ادارے کو چلانے کی پوری ذمہ داری میں خود ہی سنبھالتا ہوں، مثلًا فنڈ کو جمع کرنا اور مختلف جگہوں پر چھان بین کر کے فنڈ لگا کر کام کروانا اور ویلفیئر کے تمام تر  حساب اور کتاب رکھنا اور تمام تر حساب کو منظم کرنا اور لوگوں تک اپنا کام متعارف کروا کر پسماندہ علاقوں کے لیے فنڈ وغیرہ جمع کرنا۔ اب سوال یہ ہے  کہ : کیا میں ان تمام کاموں اور ذمہ داریوں کی تنخواہ اپنے لیے  مقرر کر سکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ ویلفیئر کے  نظم ونسق سنبھالنے کے عوض  ویلفیئر کے عمومی چندہ سے تنخواہ مقرر کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر چندہ میں     زکوٰۃ  اور  صدقات واجبہ (فطرہ، کفارہ، فدیہ اور منت وغیرہ) کی رقم ہو تو  زکوٰۃ   اور صدقات ِ واجبہ بغیر عوض  مستحق کو  مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے ، جب کہ تنخواہ محنت کا عوض ہے ،  اس لیے  زکوٰۃ وغیرہ سے   ویلفئیر کے ملازمین کو تنخواہ دینا جائز نہیں ہے، اور اگر چندہ میں نفلی صدقات وعطیات   ہوں  تب بھی یہ رقم لوگوں نے ویلفیئر  کو فقراء اور مساکین پر خرچ کرنے کے لیے دی ہے، اس لیے اس سے بھی تنخواہ دینا  جائز نہیں ۔

البتہ اگر   نفلی صدقات اور عطیات کا چندہ کرتے ہوئے  ویلفیئر اور اس کی جملہ  ضروریات کو بھی مصارف میں بتایا جائے  کہ اس سے ویلفیئر کی جملہ ضروریات  بشمول  ملازمین  کی تنخواہیں وغیرہ   پوری کی جائیں گی  یا  ملازمین کی تنخواہوں کے لیے الگ سے  چندہ کیا جائے تو  ان صورتوں میں   سائل کے لیے  مذکورہ ویلفیئر میں اپنی خدمات  سرانجام دینے کے عوض   ضابطہ اور عرف کے مطابق   تنخواہ وصول کرنا جائز ہوگا ، البتہ تنخواہ کا تعین   اپنے لیے خود کرنے کے بجائے  مالیات  کے  شعبہ میں   دو، تین  مخلص دیانت دار ساتھیوں کو مقرر کرلے  اور مالی معاملات اور تنخواہیں سب کے مشورے سے متعین کی جائیں ، تاکہ تہمت کا خطرہ نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه وإلا لا.

(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط".

 (2/ 356، کتاب الزكاة، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(يستحق القاضي الأجر على كتب الوثائق) والمحاضر والسجلات (قدر ما يجوز لغيره كالمفتي) ...الخ

(قوله: قدر ما يجوز لغيره) قال في جامع الفصولين: للقاضي أن يأخذ ما يجوز لغيره، وما قيل في كل ألف خمسة دراهم لا نقول به ولا يليق ذلك بالفقه، وأي مشقة للكاتب في كثرة الثمن؟ وإنما أجر مثله بقدر مشقته أو بقدر عمله في صنعته أيضا كحكاك وثقاب يستأجر بأجر كثير في مشقة قليلة اهـ. قال بعض الفضلاء: أفهم ذلك جواز أخذ الأجرة الزائدة وإن كان العمل مشقته قليلة ونظرهم لمنفعة المكتوب له اهـ.

قلت: ولا يخرج ذلك عن أجرة مثله، فإن من تفرغ لهذا العمل كثقاب اللآلئ مثلا لا يأخذ الأجر على قدر مشقته فإنه لا يقوم بمؤنته، ولو ألزمناه ذلك لزم ضياع هذه الصنعة فكان ذلك أجر مثله."

(6 / 92، كتاب الاجارة، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

" وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت."

(2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں