بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ویلفئیر کمیٹی کا زکاۃ کی رقم بطورِ وکیل کے ایمبولینس کے بل کی مد میں ادا کرنے کا حکم


سوال

گاؤں میں ایک ویلفیئر کمیٹی بنی ہے اور ان کے زیرِ استعمال  ایمبولینس بھی ہے اور کمیٹی کے پاس کچھ رقم زکات کی مد میں ہے  اگر  وہ مستحق زکات سے ایک فارم پر کروائے جس میں مستحق زکات شخص یہ حلف اٹھائے  کہ میں واقعی زکوۃکا مستحق ہوں اور میں ویلفیئر کے صدر کو یا ممبران کو وکیل بناتا ہوں کہ وہ میرے لیے زکات کی رقم پر قبضہ کریں اور اس کے بعد وہ رقم ایمبولینس کے بل (پیٹرول،ڈرائیور کی اجرت  وغیرہ) میں ادا کر دیں تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟اور زکات ادا ہو جائے گی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر ویلفیئر کمیٹی کے پاس زکوۃ کی رقم موجود ہے اور وہ مستحق زکوۃ مریض وغیرہ کے بل اور فیس ادا کرنے کے لیے دینا چاہتی ہے تو اس کا طریقہ یہ  ہے کہ پہلے تو ایمبولینس کا کرایہ مقرر کریں،پھر جو مسلمان غریب مریض کرایہ ادا نہیں کر سکتا ہے اس کے ہاتھ میں زکوۃ کی رقم دےدیں تا کہ وہ ایمبولینس کا کرایہ ادا کردے،یا ایمبولینس والے یا ویلفیئر کمیٹی والے مریض سے زبانی  یا تحریری اجازت لے لیں کہ آپ ہمیں وکیل بنادیں کہ ایمبولینس استعمال کرنے کی وجہ سے جو کرایہ آئے گا وہ ہم آپ کی طرف سے زکوۃ سے ادا کردیں،پھر ایمبولینس استعمال کرنے کے بعد جو کرایہ آئے گا وہ زکوۃ سے ادا کردے،اس طرح زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی اور غریب کا کام بھی ہو جائے گا،باقی سوال میں جو طریقہ لکھا ہے وہ درست نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، (قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني وتقدم تمام الكلام على ذلك أول الزكاة. (قوله: كما مر) أي في أول كتاب الزكاة ط (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي (قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه؛ ألا ترى أنه لو افترسه سبع كان الكفن للمتبرع لا للورثة نهر." 

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:344، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں