بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وعدہ خلافی کا حکم


سوال

گاؤں کی بڑی جامع مسجد کی تعمیر کے وقت الیکشن کا دور آگیا، جو بھی امیدوار آیا، اس نے مسجد میں نماز پڑھی،نماز کے بعد تقریر کی اور تقریر میں کسی نے نقد رقم کا اعلان کیا،  کسی نے سیمنٹ کی 50 بوری کا، اور ساتھ میں تمام مجمع سے ہاتھ کھڑا کرواکر ووٹ دینے کا وعدہ بھی لے لیا،  تقریبا ہر امیدوار نے یہی کیا، لیکن جب ووٹ دینے کا وقت آیا، تو گاؤں کے ہر بندے نے اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دے  دیا، جس کے نتیجے میں سارے امیدواروں کو کسی کو کم کسی کو زیادہ ووٹ ملے، میرا سوال یہ ہے، کہ مذکورہ مسجد میں نماز پڑھنے کی کیا حیثیت ہوگی، جب کہ اس میں جھوٹے وعدے کیے گیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً نمازیوں نے مختلف امیدواروں کے ساتھ ووٹ دینےکے وعدے کیے اور بعد میں اس وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی اور کو ووٹ دیا تو یہ لوگ اپنی وعدہ خلافی پر گناہ گار ہوئے ہیں،انہیں اپنے اس عمل پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے، رہی بات مذکورہ مسجد میں نماز پڑھنے کی تو اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نمازیوں کی وعدہ خلافی کی وجہ سے  مسجد میں نماز پڑھنا ناجائز نہیں ہوگا۔

مسند أحمد میں ہے:

’’عن أنس بن مالك قال: ما خطبنا نبي الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له".

(19/ 376، ط:مؤسسة الرسالة)

الأشباه والنظائر میں ہے:

"الخلف في الوعد حرام، كذا في أضحية الذخيرة۔"

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ص: 247، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں