بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویب سائٹ پر آرٹیکل لگا کر پیسہ کمانا


سوال

گیسٹ پوسٹنگ یہ ہے کہ ایک بندہ چھوٹی ویب سائٹ کا آرٹیکل بڑی ویب سائٹ پر لگواتا ہے، مثلاً چھوٹی ویب سائٹ سے آرٹیکل لگوانے کے چالیس ڈالر لیتا ہے اور بڑی ویب سائٹ کو آرٹیکل لگانے کے دس ڈالر دیتا ہے، خود اس نے تیس ڈالر منافع نکال لیا۔کیا اس کا اس طرح پیسے کمانا جائز ہے؟ اور اگر نہیں جائز تو کیا وجہ ہو گی؟ اور آرٹیکل میں شرعی طور پر کن چیزوں کو دیکھنا چاہیے؟ اور کیا اس طرح کا کام حافظ،قاری ، عالم اور درس نظامی کے طالب علم کر کے اپنا ذريعہ معاش بنا سکتے ہیں؟

جواب

اگو کوئی شخص ایک ویب سائٹ کا آرٹیکل دوسری ویب سائٹ پر لگواتا ہے اور جس کے لیے کام کرتا ہے اس سے زیادہ رقم وصول کرتا ہے تو یہ پیسے اس کے لیے حلال ہوں گے، بشرط یہ کہ آرٹیکل غیر شرعی امور پر مشتمل نہ ہو، مثلاً اس میں جاندار کی تصاویر نہ ہوں، موسیقی کی کوئی صورت نہ ہو، حرام اشیاء  یا غیر شرعی مواد کی تشہیر نہ ہو، وغیرہ۔

لیکن اگر مذکورہ بالا غیر شرعی اُمور میں سے کوئی غیر شرعی امر پایا گیا تو یہ کمائی حلال نہیں ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علي تحريم تصوير الحيوان؛ و قال: وسواء لما يمتهن أو لغيره فصنعه حرام لكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله".

(کتاب الصلاۃ، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، جلد:1، صفحہ: 647، طبع: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں