بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویب سائٹ بنانا اور کسی اور کو سکھانا


سوال

میں ایک ویب ڈیویلپر ہوں،میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو یہ کام سکھاؤں ،لیکن  مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم ویب سائٹ بناتے ہیں تو ہم اگر اس کو اپنے لیے نا بھی استعمال کریں تو جو اس کو استعمال کرنا چاہے گا وہ اس کو اپنی مرضی سے ڈیزائن کروائے گا،  اس میں تصاویر اور ویڈیوز بھی ہوں گی ،کیوں کہ یہ کام زیادہ تر کفار کےممالک  کے لیے کرنا ہوتا ہے، تو اگر میں کسی کو یہ سکھاوں اور وہ جب یہ بنائے گا تو تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ لگا کر بنائے گا، اور بہت خدشہ ہے کہ سیکھنے والا اس علم کی مدد سے کوئی گانے باجے یا پھر کسی فحش تصاویر یا ویڈیوز پر مبنی ویب سائٹ بنا دئے تو اس میں سکھانے والا گناہ گار ہو گا یا نہیں؟

جواب

ویب سائٹ کا استعمال چوں کہ صرف ناجائز امور کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا استعمال بہت سے جائز امور کے لیے بھی ہوتا ہے، لہٰذا کسی ویب سائٹ كابنانا سکھانا اور اپنا یہ فن آگے منتقل کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے اور اگر جس کو آپ یہ فن سکھائیں گے، وہ اس کا ناجائز استعمال کرے گا، تو اس کا گناہ اسی کو ہوگا، اس کے سکھانے والے کو نہیں ہوگا،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کےلیے ویب سائٹ (جو غیر شرعی اور ناجائز امور پر مشتمل نہ ہو)سکھاناجائز ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

 "قوله: ( وكره بيع السلاح من أهل الفتنة؛ لأنه إعانة على المعصية ) قيد بالسلاح؛ لأن بيع ما يتخذ منه السلاح كالحديد ونحوه لايكره؛ لأنه لايصير سلاحًا إلا بالصنعة نظيره بيع المزامير يكره ولايكره بيع ما يتخذ منه المزامير وهو القصب والخشب، وكذا بيع الخمر باطل ولايبطل بيع ما يتخذ منه وهو العنب، كذا في البدائع. وذكر الشارح أن بيع الحديد لايجوز من أهل الحرب ويجوز من أهل البغي والفرق أن أهل البغي لايتفرغون لعمله سلاحًا؛ لأن فسادهم على شرف الزوال بخلاف أهل الحرب اه  وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه وما لا فلا ولذا قال الشارح إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة اه ."

(كتاب السير،باب البغاة،ج:5،ص:154،ط:دار الكتاب الاسلامي)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"[ ‌‌(المادة 90) إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر]

(المادة 90) :إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر هذه القاعدة مأخوذة من الأشباه. ويفهم منها أنه إذا اجتمع المباشر أي عامل الشيء وفاعله بالذات مع المتسبب وهو الفاعل للسبب المفضي لوقوع ذلك الشيء ولم يكن السبب ما يؤدي إلى النتيجة السيئة إذا هو لم يتبع بفعل فاعل آخر، يضاف الحكم الذي يترتب على الفعل إلى الفاعل المباشر دون المتسبب وبعبارة أخصر يقدم المباشر في الضمان عن المتسبب."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ج1،ص91،ط؛دار الجیل)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں