بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ویب سائٹ پر آرٹیکل لکھ کر گوگل سے اشتہارات کا کمیشن لینے کا حکم


سوال

ميرا  ايک دوست  ويب سائٹ پر آرٹيکل لکھتا ہے،  اور  اس آر ٹيکل پر گوگل کی طرف سے اشتہار لگتا ہے کسی بھی کمپنی یا پروڈکٹ کا۔اب جتنے بھی لوگ اس آرٹيکل کو پڑھتے ہيں ان کو اشتہار دکھايا جاتا ہے ۔ اس طرح جتنے زيادہ لوگ اس آرٹيکل کے ذريعے اشتہار ديکھتے ہيں اس کے حساب سے ميرے دوست کو کميشن ملتا ہے گوگل کی طرف سے ۔يہ آمدنی جائز ہے يانہيں ؟ 

جواب

اگر  اشتہارات میں حرام چیزوں کی تشہیر  نہ ہونے کے ساتھ ساتھ میوزک اور جان دار  کی تصاویر بھی نہ ہوں تو  ایسے اشتہارات چلانا اور ان کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز ہو گا، بشرطیکہ اشتہارات چلانے والی کمپنی سے کیے گئے معاہدے میں کوئی اور شرعی و فقہی سقم نہ ہو۔  لیکن اگر مذکورہ ویب سائٹ پر ایسے اشتہارات ہوں جو میوزک، حرام اشیاء اور جان دار کی تصاویر وغیرہ پر مشتمل ہوں تو چوں کہ ان چیزوں کے بنانے کی طرح ان کی ترویج اور تشہیر بھی شرعاً نا جائز ہے ؛ اس لیے ایسے اشتہارات اپنی ویب سائٹ پر لگانا گناہ کے کام میں معاونت ہو گا، اور اس سے پیسہ کمانا نا جائز  ہو گا۔

 ہماری معلومات کے مطابق اگر  ایڈ چلانے والی کمپنیوں کو اپنی ویب سائٹ وغیرہ پر ایڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں کوئی اشتہار چلاتے ہیں تو  مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، یوزرز کی طلب اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر وہ اشتہارات کا انتخاب کرتے ہیں، جس  میں بسا اوقات ویب سائٹ چلانے والے کے نہ چاہتے ہوئے بھی حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر ہوجاتی ہے؛ لہٰذا اس طریقے سے کمانے سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علي تحريم تصوير الحيوان؛ و قال: وسواء لما يمتهن أو لغيره فصنعه حرام لكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله".

(١/ ٦٤٧، ط: سعيد)

فقہ السیرہ میں ہے:

"و الحق أنه لاينبغي تكلف أي فرق بين أنواع التصوير المختلفة ... نظراً لإطلاق الحديث". (٤/ ٩٧)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200736

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں