کیا گوگل ایڈسینس کے ذریعے اپنی ذاتی ویب سائٹ پر اشتہارات چلا کر آمدنی حاصل کرنا شرعی طور پر جائز ہے؟
اگر حلال اشیاء اورجائز خدمات کے اشتہارات لگاکر آمدنی حاصل کی جائے تو وہ جائزہے،اوراگراشتہارات حرام اشیاء،غیرشرعی اورفحش مواد پرشامل ہوں تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے اور ایسی صورت میں ان اشتہارات سے اگر کوئی کمائی کی ہو تو اسے صدقہ کردیاجائے۔
ارشادِباری تعالیٰ ہے:
"وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ" [المائدة: 2]
ترجمہ:"نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔"
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم، قال ابن جرير : الإثم ترك ما أمر الله بفعله والعدوان مجاوزة ما حد الله لكم في دينكم ومجاوزة ما فرض الله عليكم في أنفسكم وفي غيركم."
(سورة المائدة، الآية:2، ج:3، ص:10، ط: دار الكتب العلمية)
صحیح مسلم میں ہے:
"قال ابن عباس: إن رجلا أهدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم راوية خمر. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم هل علمت أن الله قد حرمها؟قال: لا. فسار إنسانا. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم بم ساررته؟ فقال: أمرته ببيعها. فقال إن الذي حرم شربها حرم بيعها."
(كتاب المساقاة، باب تحريم بيع الخمر، ج:3، ص:1213، ط:دار إحياء التراث العربي)
ترجمہ:"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو شراب کا مشکیزہ ہدیہ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے (شراب کو) حرام کر دیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، پھر وہ شخص کسی دوسرے آدمی سے چپکے سے کچھ باتیں کرنے لگا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: تم نے اس سے کیا سرگوشی کی؟ اس نے کہا: میں نے اسے کہا کہ اسے (شراب کو) بیچ دوتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس ذات نے شراب پینا حرام کیا ہے، اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے۔"
المحيط البرهانی میں ہے:
"إن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع، ولا يحل الانتفاع بهذه الأشياء، فلا يجوز بيعها."
(كتاب البيع، الفصل السادس فيما يجوز وما لا يجوز بيعه، ج:6، ص:349، ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100455
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن