بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویب سائٹ پر اشتہارات دیکھ کر پیسے کمانا


سوال

کسی ویب  سائٹ کے اشتہار ات دیکھ کر معاوضہ لیا جا سکتا ہے ۔ وہ ایک اشتہار کے کبھی کتنا اور کبھی کتنا معاوضہ دیتے ہیں، مثلًا 1000 اشتہار ات دیکھتا ہوں تو کبھی 1000 روپے اور کبھی 1500 تک بھی ہوجاتے ہیں ۔12 گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے ۔کیا یہ معاوضہ جائز  ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ویب سائٹ پر اشتہارات دیکھ کر کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1۔۔ ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں،ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ دیکھنے والوں  کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے دھو کا دینا  حرام ہے ۔

2۔۔ جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں؛ لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3۔۔ ان اشتہارات میں بسا اوقات  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

لہذا سائل اس  مذکورہ کا م  کو چھوڑ کر کسی  دوسرے  حلال کام کو  اختیا ر کرے   ۔

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

شعب الإيمان (2/ 434):

ترجمہ:آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

شامی(6/ 63):

"مطلب في أجرة الدلال، قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.

وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى و النوح و الغناء و الملاهي محرمة، و عقدها باطل لايستحق به أجرة. و لايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً و نوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... و لايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، و لا على حمل الخنزير".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں