بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ناجائز دوستی اور تعلق کے لیے ویب سائٹ کی سہولت دینا


سوال

ایک شخص سافٹ وئیر کمپنی میں ملازم ہے ،اس کا کام ویب سائٹیں وغیرہ بنانے کا ہوتا ہے، ایک باہر ملک کی کمپنی کی طرف سے اس شخص کی کمپنی کو ایک ویب سائٹ بنانے کا آرڈر آتا ہے جس میں یہ ہوگا کہ اس ویب سائٹ پر دو فارم بھرے جائیں گے ،ایک لڑکے اور ایک لڑکی کی طرف سے، اور اس ویب سائٹ کا کام دونوں کے درمیان رابطہ کرانا اور ناجائز تعلقات کے لیے بات چیت کرنے کا ہوگا، کہ اس فارم کو بھر کر ایک دوسرے کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے تو جو جسے پسند آئے وہ اس کے ساتھ تعلق بنائے گا ،جسے انگریزی میں (dating) کہتے ہیں۔

اب کمپنی نے اس شخص کو یہ ویب سائٹ بنانے کا حکم دیا اور وہ ملازم ہونے کی حیثیت سے اس کام کو کرے گاتو ایسی صورت میں ایسے شخص کے لیے کیا حکم ہے کہ اپنے ادارے ( کمپنی) کی بات مانتے ہوئے اس طرح کی ویب سائٹ بنادے؟ اگر مجبورا یہ ویب سائٹ بنادی تو اس کا وبال صرف کمپنی کو ہوگا یا بنانے والا بھی اس گناہ میں شامل ہوگا؟اور انکار کرنے کی صورت میں کام سے فارغ کرنے کا قوی امکان ہے جو کہ آج کل کے دور میں بہت مشکل ہوسکتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ ویب سائٹ  کے بنانے کا مقصد ہی اجنبی مرد اور عورت کے درمیان رابطے کی سہولت فراہم کرنا اور اس بناء پر ان دونوں کا ناجائز تعلق قائم کرنا ہے ، جیساکہ سوال میں مذکورہے کہ اس ویب سائٹ پر دو فارم بھرنے کی سہولت ہوگی جسے اجنبی مرد اور عورت بھریں گے ،جوان دونوں کے درمیان بات چیت اور دوستی کا ذریعہ ہوگا،تو ایسی ویب سائٹ بنانا،ناجائز کام میں معاونت کی وجہ سے جائز نہیں ہے اور اس پر ملنے والی اجرت بھی حلال نہیں۔ایک مسلمان کی ایمانی غیرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ایسی ملازمت اور اجرت کی بجائے حلال روزگار تلاش کرے۔ مذکورہ صورت میں ویب سائٹ بنانے  والا اور کمپنی دونوں گناہ گار ہوں گے، بلکہ اس کے ذریعے ناجائز ربط اور تعلق قائم کرنے والوں کا گناہ مسلسل ان دونوں کے سر پر بھی ہوگا، اس لیے ایسی سہولت فراہم کرنا حرام ہے ۔ 

قرآن کریم میں ہے :

﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ [المائدة: 2]

ترجمہ: اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔ (از بیان القرآن)

مشکوۃ المصابیح میں ہے :

"وعن جرير قال:وذکر الحدیث فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء» . رواه مسلم."

(مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الاول، رقم الحدیث:210، ج:1، ص:72، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی اسلام میں کسی نیک طریقہ کو رائج کرے تو اسے اس کا بھی ثواب ملے گا اور اس کا ثواب بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے لیکن عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس آدمی نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو رائج کیا تو اسے اس کا بھی گناہ ہوگا اور اس آدمی کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ لیکن عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔"

بدائع الصنائع میں ہے :

"ومن استأجر حمالا يحمل له الخمر فله الأجر في قول أبي حنيفة,وعند أبي يوسف ومحمد لا أجر له كذا ذكر في الأصل، وذكر في الجامع الصغير أنه يطيب له الأجر في قول أبي حنيفة، وعندهما يكره لهما أن هذه إجارة على المعصية؛ لأن حمل الخمر معصية لكونه إعانة على المعصية، وقد قال الله عز وجل {ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} [المائدة: 2] ولهذا لعن الله تعالى عشرة: منهم حاملها والمحمول إليه …………… وبه نقول: إن ذلك معصية، ويكره أكل أجرته."

(فصل فی انواع شرائط رکن الإجارۃ،ج :4،ص:190   ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں