بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وبائی صورتِ حال میں نزلہ زکام میں مبتلا شخص نماز باجماعت چھوڑنے کا حکم


سوال

موجودہ حالات میں کسی کو بخار اور نزلہ ہو تو جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  مسجد میں باجماعت نماز نہ پڑھنے کا ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی ایسی حالت میں ہو جس سے انسانوں یا فرشتوں کو اس سے اذیت ہو،  فقہاءِ کرام نے ایسے مریض کو بھی اس میں شمار کیا ہے جس سے لوگوں کو طبعی طور پر کراہت و نفرت ہوتی ہو، جیسے جذامی۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں موجودہ حالات میں یقینی طور پر کرونا وبا  کی علامت نزلہ، زکام اور بخار   کے مریض کو بھی مسجد میں نماز نہ پڑھنے کے سلسلے میں معذور سمجھا جاسکتا ہے،  لیکن جو اس مرض میں مبتلا نہ ہو، اس کے لیے یہ حکم نہیں ہے۔اور نہ ہی شرعاً جماعت چھوڑنےکی اجازت ہے۔

الترغیب و الترہیب میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وما انتشرت الفاحشة في قوم حتی يعلنوا بها إلا عمّتهم الأوجاع و الطواعين اللتي لم تكن في أسلافهم". (الترغیب والترهيب، رقم الحدیث:764)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه یقول: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: لاعدوی، ولاطیرة، ولاهامة ولاصفر، وفرّ من المجذوم کما تفر من الأسد". (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 3580)

مسلم شریف میں ہے:

"فقال أعرابي: یا رسول اللّٰه، فما بال الإبل تکون في الرمل کأنها الظباء، فیجئ البعیر الأجرب، فیدخل فیها، فیجربها کلّها؟ قال: من أعدی الأول!" (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2220)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"فقد قال النبي ﷺ: فرّ من المجذوم فرارك من الأسد، وقال: لایوردنّ ذوعاهة علی مصحّ، و إنما أراد بذلك نفي ما کان یعتقد أصحاب الطبیعة؛ فإنّهم کانوا یرون العلل المعدة مؤثرة لامحالة، فأعلمهم بقوله: إنّ هذا لیس الأمر علی ما یتوهمون بل هو متعلق بالمشیئة إن شاء کان و إن لم یشأ لم یکن، ویشیر إلی هذا المعنی قوله: فمن أعدی الأول". (مرقاة المفاتیح، ج:8، ص:373، ط:مکتبة رشیدیة)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ بيد مجذوم فوضعها معه في القصعة، وقال: كل ثقةً بالله وتوكلاً عليه". (مشكوةالمصابيح، ص:391، ط:قديمي)

بخاری شریفمیں ہے:

"عَنْ عَائِشَة رَضِیَ الله عَنْها أَنَّها سَأَلَتْ رَسُولَ الله صَلَّی الله عَلَیْه وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُوْنِ فَأَخْبَرَها نَبِیُّ الله صَلَّی الله عَلَیْه وَسَلَّمَ أَنَّه کَانَ عَذَابًا یَبْعَثُه الله عَلٰی مَنْ یَّشَاء". (صحيح البخاري،کتاب الطب، باب أجر الصابر في الطاعون ،۴/۳۰ حدیث: ۵۷۳۴)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أكل من هذه الشجرة المنتنة فلايقربنّ مسجدنا، فإنّ الملائكة تتأذي منه.

(المنتنة) أي الثوم، ويقاس عليه البصل والفجل وماله رائحة كريهة كالكراث، قال العلماء: ومن ذلك من به بخر مستحكم و جرح منتن".(مرقاة المفاتیح، ج:2، ص:412، ط: مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وكذلك ألحق بذلك بعضهم من بفيه بخر، أو به جرح له رائحة، وكذلك القصاب والسماك والمجذوم والأبرص أولى بالإلحاق، وصرح بالمجذوم ابن بطال، ونقل عن سحنون: لاأرى الجمعة عليه، واحتج بالحديث. وألحق بالحديث: كل من آذى الناس بلسانه في المسجد، وبه أفتى ابن عمر، رضي الله تعالى عنهما، وهو أصل في نفي كل ما يتأذى به". (ردالمحتار علی الدرالمختار، ج:1، ص:661، ط:ایچ ایم سعید)

کفایت المفتی میں ہے :

"۔۔۔ان صورتوں  میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخول مسجد اور شرکت جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلہ اور مسجد غیر محلہ کا فرق نہیں ہے، محلہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے تو غیر محلہ کی مسجد سے بالاولی روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوف تلویث مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے"۔ (ج۳ / ص ۱۳۸، دار الاشاعت) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110201118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں