بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مصنوعی اعضاء کا وضو میں دھونا


سوال

مصنوعی ہاتھ يا پاؤں لگانےوالا شخص وضو كس طرح كرےگا؟ كيا مصنوعی ہاتھ پاؤں دھونا ضروری  ہے یا نہیں؟

جواب

اگر  سرجری کے ذریعے مصنوعی ہاتھ یا پاؤں لگایا جائے تو اس صورت میں اگر ہاتھ   کہنی کے اوپر تک کٹا ہوا ہو اور پاؤں ٹخنوں کے اوپر تک کٹا ہوا ہو  اور اس کی جگہ مصنوعی ہاتھ اور پاؤں لگایا ہو تو وضو میں ان کو دھونا ضروری نہیں ہے۔

 اگر ہاتھ   کہنی کے اوپر تک کٹا ہوا نہ ہو  اور پاؤں ٹخنوں کے اوپر تک کٹا ہوا نہ ہو  بلکہ نیچے سے کٹا ہوا ہو تو اس صورت میں اگر  مصنوعی ہاتھ یا پاؤں کو  آسانی سے نکال کر دوبارہ لگانا ممکن ہو ، اور وہ خراب نہ ہوتا ہو تو ان کو نکال کر اصل  ہاتھ اور پاؤں کا  جتنا حصہ وضو میں دھونا فرض ہے اس کو دھونا ضروری ہوگا۔ اور اگر اس کو کھولنا اور الگ کرنا ممکن نہیں ہےیعنی مصنوعی عضو کو اصل جسم کے ساتھ سرجری کے ذریعے اس طرح جوڑدیا گیا ہو کہ مصنوعی عضو کو علیحدہ کرنا ممکن نہ ہو  تو اس کے اوپر سے اس کو دھونا  کافی ہوگا۔

تاہم اگر سرجری کے ذریعے اصلی ہاتھ اور پاؤں ہی کو جوڑا گیا ہو تو وہ جڑنے کے بعد دوبارہ جسم کا حصہ بن جائیں گے اور وضو میں ان کا دھونا فرض ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلدا لما في - {فاطهروا} [المائدة: 6]- من المبالغة (وفرج خارج) لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولا تدخل أصبعها في قبلها به يفتي.  (لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)  يندب هو الأصح قاله الكمال، وعلله بالحرج فسقط الإشكال. وفي المسعودي إن أمكن فسخ القلفة بلا مشقة يجب وإلا لا.

(قوله: كعين) لأن في غسلها من الحرج ما لا يخفى؛ لأنها شحم لا تقبل الماء، وقد كف بصر من تكلف له من الصحابة كابن عمر وابن عباس بحر. ومفاده عدم وجوب غسلها على الأعمى خلافًا للحانوتي حيث بناه على أن العلة أنه يورث العمى، ولهذا نقل أبو السعود عن العلامة سري الدين أن العلة الصحيحة كونه يضر وإن لم يورث العمى، فيسقط حتى عن الأعمى اهـ."

(جلد۱، ص:۱۵۲، ط: دار الفکر بیروت)

البحر الرائق میں ہے:

"وهو تطهير جميع البدن واسم البدن يقع على الظاهر والباطن إلا أن ما يتعذر إيصال الماء إليه خارج عن قضية النص، وكذا ما يتعسر؛ لأن المتعسر منفي كالمتعذر كداخل العينين، فإن في غسلهما من الحرج ما لا يخفى فإن العين شحم لا تقبل الماء."

(جلد۱، ص:۴۸، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو قطعت يده أو رجله فلم يبق من المرفق والكعب شيء سقط الغسل ولو بقي وجب، كذا في البحر الرائق. وكذا غسل موضع القطع، هكذا في المحيط.وفي اليتيمة: سئل الخجندي عن رجل زمن رجله بحيث لو قطع لايعرف هل يجب عليه غسل الرجلين في الوضوء؟ قال: نعم. كذا في التتارخانية".

(الفصل الاول فی فرائض الوضوء، کتاب الطہارۃ ، جلد 1 ص:5 ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں