بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کے بعد انگلی اٹھانا/خظبہ کے دوران دعا کا حکم


سوال

 کچھ افراد وضو کے بعد شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر کلمہ شہادت پڑھتے ہیں  اور کچھ افراد جمعہ کے خطبہ کے درمیان ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں ۔ دونوں مسئلہ کے اعتبار سے سنت طریقہ کا معلوم کرنا ہے ۔ 

جواب

  1.  واضح رہے کہ وضو کے بعد کی دعا حدیث سے ثابت  ہے اور اس وقت آسمان کی طرف دیکھنا بھی سنن ابی داؤد کی روایت میں مذکور ہے، لیکن انگلی سے اشارہ کرنا حدیث سے  ثابت نہیں ہے۔ البتہ  فقہ حنفی کی مستند کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف دیکھنے کے ساتھ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کا ذکر بھی ہے. اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبات وغیرہ میں شہادتین کے کلمات ادا کرتے وقت شہادت کی انگلی سے اشارہ ثابت ہے۔

    بنا بریں وضو کے بعد  کلمہ شہادت پڑھتے وقت انگلی کے اشارے کوسنت تونہیں کہاجائے گا، لیکن اگر کوئی کلمہ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف نگاہ کرنے کے ساتھ شہادت کی انگلی سے اشارہ بھی کرے تو اسے منع بھی نہیں کیا جائے گا۔

سنن ابی داود میں ہے :

"عن عقبة بن عامر الجهني  عن النبي صلى الله عليه وسلم  نحوه، ولم يذكر أمر الرعاية، قال عند قوله: "فأحسن الوضوء": "ثم رفع نظره إلى السماء فقال" وساق الحديث بمعنى حديث معاوية".

(باب ما يقول الرجل اذا توضا،ج:1،ص:124،دارالرسالة العالمية)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :

"والإتيان بالشهادتين بعده" قائما مستقبلا لقوله صلى الله عليه وسلم: "ما منكم من أحد يتوضأ فيسبغ الوضوء ثم يقول أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وفي رواية أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية يدخلها من أي باب شاء

قوله: "والإتيان بالشهادتين بعده" ذكر ‌الغزنوي أنه يشير بسبابته حين النظر إلى السماء".

(ص:77،دارالکتب العلمیۃ)

2.دونوں خطبوں کے دوران امام کے جلسہ کے وقت ہاتھ اٹھانا اور زبان سے دعا کرنا ثابت اور منقول نہیں ہے، البتہ بغیر ہاتھ اٹھائے دل ہی دل میں دعا کرنا درست ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(إذا خرج الإمام) من الحجرة إن كان وإلا فقيامه للصعود شرح المجمع (فلا صلاة ولا كلام إلى تمامها)

(قوله: ولا كلام) أي من جنس كلام الناس أما التسبيح ونحوه فلا يكره وهو الأصح كما في النهاية والعناية وذكر الزيلعي أن الأحوط الإنصات ومحل الخلاف قبل الشروع أما بعده فالكلام مكروه تحريما بأقسامه كما في البدائع بحر ونهر وقال البقالي في مختصره وإذا شرع في الدعاء لا يجوز للقوم رفع اليدين ولا تأمين باللسان جهرا فإن فعلوا ذلك أثموا وقيل أساءوا ولا إثم عليهم والصحيح هو الأول وعليه الفتوى وكذلك إذا ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم - لا يجوز أن يصلوا عليه بالجهر بل بالقلب وعليه الفتوى رملي".

(کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ،ج:2،ص:158،سعید)

وفيه أيضاّ:

"(قوله وسئل - عليه الصلاة والسلام - إلخ) ثبت في الصحيحين وغيرهما عنه - صلى الله عليه وسلم - «فيه ساعة لا يوافقها عبد مسلم وهو قائم يصلي يسأل الله - تعالى - شيئا إلا أعطاه إياه» وفي هذه الساعة أقوال. أصحها أو من أصحها أنها فيما بين أن يجلس الإمام على المنبر إلى أن يقضي الصلاة كما هو ثابت في صحيح مسلم عنه - صلى الله عليه وسلم - أيضا حلية. قال في المعراج: فيسن الدعاء بقلبه لا بلسانه لأنه مأمور بالسكوت. اهـ".

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،ج:2،ص:164،سعيد)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"سوال:خطیب جمعہ وعیدین کے دو خطبوں کے درمیان جلسہ کرتا ہے ،اس وقت حاضرین ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں کیا اس کا ثبوت ہے ؟

الجواب:اس جلسہ میں کوئی دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ،غایۃ الاوطار میں اس مسئلہ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے "تنبیہ،آج کل یہ دستور ہورہا ہے کہ خطیب جب خطبہ اول پڑھ کر بیٹھتا ہے تو لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگتے ہیں ،اس لیے اس مسئلہ کی تحقیق اس جگہ مناسب معلوم ہوتی ہے ،ابو داؤد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے پڑھا کرتے تھے ،اس طرح کہ منبر پر چڑھ کر  بیٹھتے جب تک کہ مؤذن فارغ ہو ،پھر کھڑے ہوکر خطبہ پڑھتے پھر بیٹھتے اور کلام نہ کرتے اور پھر کھڑے ہوتے  اور خطبہ پڑھتے ،طحطاوی نے کہا کہ اس جلوس میں کوئی دعا آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوئی ،شمس الائمۃ سرخسی نے شرح ہدایہ میں فرمایا کہ خطیب کو درمیان دو خطبوں کے جدائی کے لیے جلسہ اتنا کرنا چاہیے کہ تمام اعضاء اس کے قرار پاجائیں اور اس جلسہ میں دعا کرنا بدعت ہے اور سعنانی نے لکھا ہے کہ ہاتھ اٹھانا دعا کے لیے دو خطبوں کے درمیان  میں غیر مشروع ہے اور جامع الخطیب میں ہے  کہ ہاتھ اٹھانا دعا کے لیے دو خطبوں کے بیچ میں حرام ہے اور شیخ عبد الحق نے شرح مشکاۃ میں حدیث مذ کورہ بالا کے ذیل میں لکھا ہے کہ کلام نہ کرتے ،اس کے یہ معنی کہ نہ دعا مانگتے نہ دعا کے سوا اور کوئی بات کرتے اور یہ جو حدیث میں آیا ہے  کہ جمعہ میں ساعت دعا کے قبول ہونے کی امام کے منبر  پر چڑھنے کے وقت سے نماز کے پورا ہونے تک ہے ،تو ملا علی قاری  نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے   کہ یہی وقت ہے کہ غیر امام کو کلام اس وقت  میں حرام ہے اوردعا سے مراد وہ دعا ہے جو امام سب مسلمانوں کے لیے پڑھتا ہے ،خطبہ اور نماز کے اندر ،پس اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ امام یا سننے والے جلسہ کے اندر ہاتھ اٹھا نا  کر دعا مانگیں الخ۔"

(باب الجمعۃ والعیدین ،ج:6،ص:128،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم

 

 


فتوی نمبر : 144407100644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں