بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو اور غسل میں دیر لگنے کا حل


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ  میں صابن لگا کر غسل کرتے ہوئے ایک گھنٹا لگا تا ہوں اور بغیر صابن کے پچاس منٹ، جبکہ لوگ بہت جلدی کر لیتے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ مسجد میں لوگ بہت جلدی وضو بنا لیتے ہیں، جبکہ میں بہت ٹائم لگاتا ہوں، بسا اوقات وضو کرتا ہوں پھر پیر دھوتے ہوئے چھینٹے منہ یا بازو وغیرہ پر پیروں سے یا مسجد کی وضو والی جگہ سے، یا وضو والی جگہ کی نکاسی والی نالی ہوتی ہے، جہاں وضو والا پانی جا رہا ہوتا ہے، یا گھر میں وضو کرتے ہوئےفرش سے چھینٹے پر جائیں تو پھر منہ یا بازو جہاں چھینٹے پڑیں‘ تین تین دفعہ دھوتا ہوں یوں میرا بہت ٹائم لگ جاتا ہے۔ میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ وضو کے لیے استعمال شدہ پانی ناپاک نہیں ہوتا، بلکہ پاک ہوتا ہے، لہٰذا اگر اس کے چھینٹے جسم یا کپڑے پر لگ جائیں، تو اس سے نہ کپڑے ناپاک ہوں گے، نہ ہی جسم ناپاک ہوگا۔ 

اسی طرح غسل کے لیے استعمال شدہ پانی بھی ناپاک نہیں ہوتا سوائے اس پانی کے جس سےنجاست دھوئی ہو۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں سائل کو وضو اور غسل کرتے ہوئےزیادہ وہم نہیں کرنا چاہیے ۔ غسل سے پہلے نجاست کو (بہتر یہ ہے کہ ’ڈبلیو سی ‘یا ’کموڈ ‘پر ہی )دھو  کر پاک کرلیں۔ اس کے بعد غسل کر لیں، اور غسل کے چھینٹے اگر جسم پر پڑیں بھی تو اس کا وہم نہ کریں کہ جسم ناپاک ہوگیا ہے، بلکہ جب یقین ہوجائے کہ پورا جسم دھل گیا ہے(بال برابر جگہ بھی خشک نہیں رہی) تو باہر آجائیں،غسل خانہ شیاطین کی جگہ ہوتی ہے، وہاں بلا عذر  زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں۔

اسی طرح وضو کی چھینٹیں بھی اگر جسم پر پڑ جائیں تو اس سے جسم ناپاک نہیں ہوتا، نہ ہی اسے تین دفعہ پاک کرنا لازم ہے۔

یہ وہم اور وسوسے شیاطین کی طرف سے ہوتے ہیں تاکہ بندہ مؤمن کو عبادات سے روکے اور دین کے آسان احکام کوانسان کے لیے مشکل بنادے۔ لہٰذا اس کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیے۔

في الدر:

"(وهو طاهر) ولو من جنب وهو الظاهر، لكن يكره شربه والعجن به تنزيهاً للاستقذار، وعلى رواية نجاسته تحريماً (و) حكمه أنه (ليس بطهور) لحدث بل لخبث على الراجح المعتمد".

وفي الرد:

"(قوله: وهو طاهر إلخ) رواه محمد عن الإمام وهذه الرواية، هي المشهورة عنه، واختارها المحققون، قالوا: عليها الفتوى، لا فرق في ذلك بين الجنب والمحدث. واستثنى الجنب في التجنيس إلا أن الإطلاق أولى وعنه التخفيف والتغليظ، ومشايخ العراق نفوا الخلاف، وقالوا: إنه طاهر عند الكل. وقد قال المجتبى: صحت الرواية عن الكل أنه طاهر غير طهور، فالاشتغال بتوجيه التغليظ والتخفيف مما لا جدوى له، نهر، وقد أطال في البحر في توجيه هذه الروايات، ورجح القول بالنجاسة من جهة الدليل لقوته".

(الدر مع الرد:باب المياه، الماء المستعمل، ١/ ٢٠٠، ٢٠١، ط: سعيد)

الدر المختار مع الرد میں ہے:

"(وتثليث الغسل) المستوعب؛ ولا عبرة للغرفات، ولو اكتفى بمرة إن اعتاده أثم، وإلا لا، ولو زاد لطمأنينة القلب أو لقصد الوضوء على الوضوء لا بأس به وفي الرد :(قوله: لطمأنينة القلب) لأنه أمر بترك ما يريبه إلى ما لا يريبه، وينبغي أن يقيد هذا بغير الموسوس أما هو فيلزمه قطع مادة الوسواس عنه وعدم التفاته إلى التشكيك؛ لأنه فعل الشيطان وقد أمرنا بمعاداته ومخالفته رحمتي، ويؤيده ما سنذكره قبيل فروض الغسل عن التتارخانية أنه لو شك في بعض وضوئه أعاده إلا إذا كان بعد الفراغ منه، أو كان الشك عادة له فإنه لا يعيده ولو قبل الفراغ قطعا للوسوسة عنه. اهـ"

(کتاب الوضوء،سنن الوضوء،ج:1،ص:119،ط:سعید)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن القاسم بن محمد أن رجلا سأله فقال: «إني ‌أهم في صلاتي فيكثر ذلك علي فقال القاسم بن محمد امض في صلاتك فإنه لن يذهب عنك حتى تنصرف وأنت تقول ما أتممت صلاتي» . رواه مالك"

(کتاب الایمان ،باب فی الوسوسۃ،ج:1،ص:29،ط:المکتب الاسلامی)

مرقاۃ  میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے:

"(فقال له: امض في صلاتك) : سواء كانت الوسوسة خارج الصلاة، أو داخلها، ولا تلتفت إلى موانعها (فإنه لن يذهب ذلك عنك) : فإنه ضمير للشأن، والجملة تفسير له، وذلك إشارة إلى الوهم المعني به الوسوسة، والمعنى لا يذهب عنك تلك  الخطرات الشيطانية، (حتى تنصرف) أي: تفرغ من الصلاة (وأنت تقول) : للشيطان صدقت (ما أتممت صلاتي) : لكن ما أقبل قولك، ولا أتمها إرغاما لك، ونقضا لما أردته مني، وهذا أصل عظيم لدفع الوساوس، وقمع هواجس الشيطان في سائر الطاعات، والحاصل أن الخلاص من الشيطان إنما هو بعون الرحمن، والاعتصام بظواهر الشريعة، وعدم الالتفات إلى الخطرات، والوساوس الذميمة، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم (رواه مالك)"

(کتاب الایمان ،باب فی الوسوسۃ،ج:1،ص:147،ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں