بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی شرعی حثیت


سوال

وضو سےپہلے" بسم اللہ" پڑھنے کی شرعی حیثیت کیاہے؟میں نے سنا ہےکسی حدیث میں آیا ہے کہ اگر وضو سے پہلے" بسم اللہ" نہ پڑھیں تو وضو نہیں ہوتا۔

جواب

 وضوسے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے، اگر کسی سےوضوسے پہلے بسم اللہ عمداًیاسہواًرہ جائےتووضوکی صحت پر اثر نہیں پڑے گا،یعنی وضو ہوجائے گا،البتہ بسم اللہ پڑھنے کاثواب نہیں ملے گااور سنت چھوڑنے کانقصان ہوگا،اس لیےباربار جان بوجھ کر وضو سےپہلے بسم اللہ ترک کرنا مناسب نہیں،  جس حدیث میں یہ ذکرہےکہ اگر وضو سے پہلے "بسم اللہ"نہ پڑھیں تووضو نہیں ہوتا،اس حدیث کامطلب  بھی محدثین نے یہی لکھا ہے کہ"بسم اللہ کےبغیر وضو کرنے سےوضو (ہوتوجاتاہےمگر مسنون اور)کامل نہیں ہوتا،اس لیےکہ دیگر احادیث جن میں وضو کامسنون طریقہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نےحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے،اس میں وضو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا ذکرنہیں ہے،ان احاديث ميں سے ايك حديث يه هے:

"عن أبي هريرة وابن مسعود وابن عمر -رضي اللَّه عنهم- أنه -صلى اللَّه عليه وسلم- قال: (من توضأ فذكر اسم اللَّه ‌كان ‌طهورًا ‌لجميع ‌بدنه، ومن توضأ ولم يذكر اسم اللَّه كان طهورًا لأعضاء وضوئه)."

(كتاب الطهارة، باب سنن الوضوء، الفصل الثاني، ج:2، ص:137، ط: دار النوادر، دمشق - سوريا

ترجمہ :"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:اگرکسی نے وضو کرتے وقت اللہ تعالی کانام لیا تووہ وضو اس کے تمام بدن کے لیے طہارت کاسبب ہوگا،اگر کسی نے وضو کرتےوقت اللہ تعالی کانام نہیں لیا تو وضو صرف  اعضاءوضو کےلیےطہارت کاسبب ہوگا۔"

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ وضوسے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے ،اگروضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہوتاتو ان احادیث میں اس کاذکر ضرور ہو تا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(منها ‌التسمية) ‌التسمية سنة مطلقا غير مقيد بالمستيقظ وتعتبر عند ابتداء الوضوء حتى لو نسيها ثم ذكر بعد غسل البعض وسمى لا يكون مقيما للسنة."

(كتاب الطهارة، الفصل الثاني في سنن الوضوء، ج:1، ص:6، ط: دار الفكر بيروت)

لمعات التنقيح فی شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة وابن مسعود وابن عمر -رضي اللَّه عنهم- أنه -صلى اللَّه عليه وسلم- قال: (من توضأ فذكر اسم اللَّه ‌كان ‌طهورًا ‌لجميع ‌بدنه، ومن توضأ ولم يذكر اسم اللَّه كان طهورًا لأعضاء وضوئه)."

(كتاب الطهارة، باب سنن الوضوء، الفصل الثاني، ج:2، ص:137، ط: دار النوادر، دمشق - سوريا)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ما ذكره المصنف من أن البداءة بالتسمية سنة هو مختار الطحاوي وكثير من المتأخرين."

(كتاب الطهارة، سنن الوضوء، ج:1، ص: 109، ط: سعيد)

تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی میں ہے:

"فالحديث لا يصلح للاحتجاج فلا يصح الإستدلال به على أن النفي في قوله صلى الله عليه وسلم لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه ‌محمول ‌على ‌نفي ‌الكمال."

(أبواب الطهارة، باب في التسمية عند الوضوء، ج:1، ص:94، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں