بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کو توڑنے والی اشیاء کیا ہیں؟


سوال

کن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ دو قسم کی ہیں:

1۔  جو انسان کے جسم سے نکلیں۔ جیسے پیشاب،  پاخانہ،  ریح وغیرہ۔

2 ۔جو انسان پر طاری ہوں،  جیسے:  بیہوشی، نیند وغیرہ

پہلی قسم یعنی جسم انسانی سے نکلنے والی چیزوں کی بھی دو قسمیں ہیں:

1۔ جو پیشاب و پاخانہ کے راستہ سے نکلے۔ 

2۔  وہ جو باقی جسم کے کسی مقام سے  نکلے  جیسے: قے، خون وغیرہ ۔

ان دو راستوں کے علاوہ جسم کے باقی حصہ کے کسی مقام سے کچھ نکلنے کی یہ صورتیں ہیں۔ کوئی ناپاک چیز  نکلےاور جسم پر بہے مثلاً: خون، کچ لہو یا  پیپ وغیرہ تو وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ تھوڑی سی بہے۔  اگر آنکھ میں خون نکل کر آنکھ میں ہی بہا اور باہر نہیں نکلا تو وضو نہیں ٹوٹا، کیوں کہ آنکھ کے اندر کا حصہ نہ وضو میں دھونا فرض ہے نہ غسل میں، اور اگر باہر نکل کر بہا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

قےمیں اگر پت،  خون یا کھانایا پانی منہ بھر کر نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا،  اگر منہ بھر سے کم ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔( منہ بھر قے وہ ہے جو بغیر مشقت نہ رک سکے )

اگر خالص بلغم نکلے تو وضو نہیں ٹوٹے گا خواہ منہ بھر ہی ہو۔

 منہ یا دانتوں سے خون تھوک کے ساتھ مل کر آئے تو اگر خون غالب یا برابر ہے تو وضو جاتارہے گا اور کم ہے تو نہیں ٹوٹا ۔

 اگر زخم پر خون ظاہر ہوا اور اس کوانگلی یا کپڑے سے پونچھ لیا پھر ظاہر ہوا پھر پونچھ لیا کئی بار ایسا کیا اگر یہ سب دفعہ کا خون مل کر اتنا ہو جاتا ہے کہ بہ جائے تو وضو ٹوٹ گیا، ورنہ نہیں۔

 اگر آنکھ یا کان یا چھاتی یا ناف یا کسی حصہ جسم سے درد کے ساتھ پانی نکلا تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

 اگر بغیر درد کے نکلا تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔

 اگر آنکھ  نہ دکھتی ہو،  نہ اس میں کھٹک ہوتی ہو اور محض نزلہ کی وجہ سے یا  یوں  ہی پانی بہے یا آنسو نکل آئے تو وضو نہیں ٹوٹے گا ۔

 اگر جما ہوا خون مسور کے دانے کے برابرناک صاف کرتے وقت نکلے تو وضو باقی رہا۔

 وضو توڑنے والی دوسری قسم کی چیزیں:

یعنی جو انسان پر طاری ہوتی ہیں  اس کی یہ صورتیں ہیں:

1۔ نیند:  لیٹ کر سونا خواہ چت ہو یا پٹ یا کروٹ پر یا تکیہ وغیرہ کے سہارے سےہو یا کسی اور شکل پر ہو جس سے سرین زمین سے جدا ہو جائے  یا صرف ایک سرین پر سہارا دے کر سو جائے تو  وضو ٹوٹ جائے گا۔ سہارے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سہارا ہٹا لیا جائے تو وہ گر پڑے اور سرین زمین سے جدا ہو جائے۔

 اگر بغیر سہارا لیے کھڑے کھڑے یا بغیر سہارا لگائے  بیٹھ کر سو جائے یا نماز کی کسی ہیت پرجو مردوں کے  لیے مسنون ہو مثلاً سجدہ یا قعدے میں مسنونہ ہیت پر سو گیا تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔

 اگر دونوں سرین پر بیٹھا ہے،  گھٹنے کھڑے ہیں،  ہاتھ پنڈلیوں پر لپٹے ہوئے ہیں اور سر گھٹنوں میں ہے تو اس حالت میں  سونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔

2۔  بےہوشی:  خواہ بیماری یا کسی اور وجہ سے ہو، مثلاً غشی، جنون ، مرگی اور نشہ وغیرہ سے بے ہوشی ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، اگرچہ تھوڑی دیر ہی ہو،  اس کی حد یہ ہے کہ اس کے  پاؤں میں لغزش آجائے۔

3۔ نمازکےاندرقہقہہ مارنا:  یعنی اس طرح کھلکھلا کر ہنسنا کہ اس کے برابر والے سن لیں،  قہقہہ وضو اور نماز دونوں کو توڑتاہے خواہ عمداً ہو یا سہواً،  اگر نماز کے باہر قہقہہ سے ہنسے تو وضو نہیں ٹوٹتا ۔

4۔مباشرتِ فاحشہ:  یعنی عورت اور مرد کی شرم گاہوں کا اس طرح ملنا کہ ننگے ہوں تو وضو ٹوٹ جائے گا۔( ماخوذ از عمدۃ الفقہ )

یہ چند اصول ہیں، باقی جو صورت پیش آئےاسے بتاکر معلوم کرلیا جائے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"منها ما يخرج من السبيلين من البول والغائط والريح الخارجة من الدبر والودي والمذي والمني والدودة والحصاة، الغائط يوجب الوضوء قل أو كثر وكذلك البول والريح الخارجة من الدبر.

(ومنها) ما يخرج من غير السبيلين ويسيل إلى ما يظهر من الدم والقيح والصديد والماء لعلة وحد السيلان أن يعلو فينحدر عن رأس الجرح... إذا كان في عينه قرحة ووصل الدم منها إلى جانب آخر من عينه لا ينقض الوضوء؛ لأنه لم يصل إلى موضع يجب غسله. كذا في الكفاية...وإذا خرج من أذنه قيح أو صديد ينظر إن خرج بدون الوجع لا ينتقض وضوءه وإن خرج مع الوجع ينتقض وضوءه؛ لأنه إذا خرج مع الوجع فالظاهر أنه خرج من الجرح.... ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل إذا خرج من الجرح دم قليل فمسحه ثم خرج أيضا ومسحه فإن كان الدم بحال لو ترك ما قد مسح منه سال انتقض وضوءه وإن كان لا يسيل لا ينتقض وضوءه وكذلك إن ألقى عليه رمادا أو ترابا ثم ظهر ثانيا وتربه ثم وثم فهو كذلك يجمع كله. كذا في الذخيرة...خرج دم من القرحة بالعصر ولولاه ما خرج نقض في المختار. كذا في الوجيز للكردري وهو الأشبه. كذا في القنية وهو الأوجه. كذا في شرح المنية للحلبي.وإن قشرت نقطة وسال منها ماء أو صديد أو غيره إن سال عن رأس الجرح نقض وإن لم يسل لا ينقض هذا إذا قشرها فخرج بنفسه أما إذا عصرها فخرج بعصره لا ينقض؛ لأنه مخرج وليس بخارج. كذا في الهداية.الرجل إذا استنثر فخرج من أنفه علق قدر العدسة لا ينقض الوضوء. كذا في الخلاصة.

(ومنها القيء) لو قلس ملء فيه مرة أو طعاما أو ماء نقض. كذا في المحيط والحد الصحيح في ملء الفم أن لا يمكنه إمساكه إلا بكلفة ومشقة. كذا في محيط السرخسي.

(ومنها النوم) ينقضه النوم مضطجعا في الصلاة وفي غيرها بلا خلاف بين الفقهاء وكذا النوم متوركا بأن نام على أحد وركيه. هكذا في البدائع وكذا النوم مستلقيا على قفاه....ولو نام مستندا إلى ما لو أزيل عنه لسقط إن كانت مقعدته زائلة عن الأرض نقض بالإجماع وإن كانت غير زائلة فالصحيح أن لا ينقض. هكذا في التبيين....ولا ينقض نوم القائم والقاعد ولو في السرج أو المحمل ولا الراكع ولا الساجد مطلقا إن كان في الصلاة وإن كان خارجها فكذلك إلا في السجود فإنه يشترط أن يكون على الهيئة المسنونة له بأن يكون رافعا بطنه عن فخذيه مجافيا عضديه عن جنبيه وإن سجد على غير هذه الهيئة انتقض وضوءه.

(ومنها الإغماء والجنون والغشي والسكر) الإغماء ينقض الوضوء قليله وكثيره وكذا الجنون والغشي والسكر في هذا الباب أن لا يعرف الرجل من المرأة عند بعض المشايخ وهو اختيار الصدر الشهيد والصحيح ما نقل عن شمس الأئمة الحلواني أنه إذا دخل في بعض مشيته تحرك كذا في الذخيرة.

(ومنها القهقهة) وحد القهقهة أن يكون مسموعا له ولجيرانه والضحك أن يكون مسموعا له ولا يكون مسموعا لجيرانه والتبسم أن لا يكون مسموعا له ولا لجيرانه. كذا في الذخيرة القهقهة في كل صلاة فيها ركوع وسجود تنقض الصلاة والوضوء عندنا. كذا في المحيط سواء كانت عمدا أو نسيانا كذا في الخلاصة.

(ومنها المباشرة الفاحشة) إذا باشر امرأته مباشرة فاحشة بتجرد وانتشار وملاقاة الفرج بالفرج ففيه الوضوء في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - استحسانا وقال محمد - رحمه الله تعالى -: لا وضوء عليه وهو القياس. كذا في المحيط وفي النصاب هو الصحيح وفي الينابيع وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية في الملامسة الفاحشة لا يعتبر انتشار آلة الرجل في انتقاض طهارة المرأة. كذا في القنية."

(كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء، ج:1، ص:9۔13، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں