بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وظیفے اور صلاۃ الحاجہ میں سے کون سا عمل مقدم ہے؟


سوال

آج جمعہ میں مولوی صاحب نے کہا کہ وظائف نہ پڑھیں، بلکہ نمازِ  حاجات پڑھیں، کیا وظائف پڑھنا منع ہے؟

جواب

وظائف دو طرح کے ہیں:

1- بعض وظائف احادیثِ نبویہ میں صراحتًا مذکور ہیں، اور بعض کے الفاظ قرآنِ مجید یا احادیثِ نبویہ میں صراحتًا مذکور ہیں، ان پر عمل میں تو کسی بھی طرح کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 

2- بعض وظائف کا ذکر قرآن و حدیث میں صراحتاً نہیں ہوتا، بلکہ وہ مختلف اکابر وبزرگوں کے تجربہ سے ثابت ہوتے ہیں، اکثر قرآن یا حدیث میں بھی ان کی کوئی بنیاد مل جاتی ہے۔ 

ایسے وظائف  جو قرآنِ مجید اور حدیثِ مبارک سے  صراحتاً ثابت تو نہ ہوں، بلکہ مختلف بزرگوں سے ثابت ہوں، خواہ وہ روحانی یا جسمانی امراض سے شفا کے حوالے سے ہوں یا دیگر جائز امور و مقاصد کے حل کے لیے ہوں، ان کی شرعی حیثیت جواز کی ہے۔  ایسے وظائف کو اس نیت سے کرنا جائز ہے کہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، البتہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل (خواہ اشارۃً ہو) قرآن وحدیث میں موجود ہوتی ہے، لیکن ان کی حیثیت بہرحال شریعت کے کسی مستحب عمل سے بھی کم درجے کی ہے، جب کہ صلاۃ الحاجات احادیث سے ثابت عمل ہے، اس لیے پریشانی کے وقت میں صلاۃ الحاجت کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ اگر مسنون ادعیہ کا بھی اہتمام کرلیا جائے تو یہ اور بہتر ہے، جیسے صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کرب و پریشانی کے وقت درج ذیل دعا پڑھا کرتے تھے:

’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَ رَبُّ الْأَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ‘‘.

ترجمہ : اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جو بڑا عظیم اور بردبار ہے، اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے، اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو زمین و آسمان اور عرش کریم کا رب ہے۔‘‘

سنن أبي داود (ج:1، ص:227، ط: مكتبه رحمانيه لاهور):

’’عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: دخل رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات يوم المسجد، فإذا هو برجل من الأنصار، يقال له: أبو أمامة، فقال: «يا أبا أمامة، ما لي أراك جالسا في المسجد في غير وقت الصلاة؟»، قال: هموم لزمتني، وديون يا رسول الله، قال: «أفلا أعلمك كلاما إذا قلته أذهب الله همك، وقضى عنك دينك؟»، قال: قلت: بلى، يا رسول الله، قال: "قل إذا أصبحت، و إذا أمسيت: اللهم إني أعوذ بك من الهم و الحزن، و أعوذ بك من العجز و الكسل، و أعوذ بك من الجبن و البخل، و أعوذ بك من غلبة الدين، و قهر الرجال"، قال: ففعلت ذلك، فأذهب الله همي، وقضى عني ديني.‘‘

’’ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں داخل ہوئے، تو وہاں ایک انصاری شخص بیٹھے ہوئے تھے جن کا نام ابو امامہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: اے ابو امامہ! میں تمہیں مسجد میں ایسے وقت میں بیٹھا دیکھ رہا ہوں جو نماز کا نہیں، (خیریت تو ہے؟)، انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بہت ساری پریشانیوں اور قرضوں نے مجھے گھیر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں وہ کلمات نہ سکھلاؤں جنہیں تم پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے غم دور کردے گا اور تمارے قرض  بھی ادا کردے گا؟ انھوں نے (خوشی سے) عرض کیا: بالکل  یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:صبح اور شام یہ پڑھا کرو:

’’اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ، وَقَهْرِ الرِّجَالِ‘‘.

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے ایسا ہی کیا (جیسا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فرمایا تھا) تو اللہ تعالیٰ نے میرے غم بھی دور کردیے اور میرا (سارا) قرضہ بھی ادا کردیا۔‘‘

سنن الترمذي (ج:5، ص:452، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت):

’’عن علي رضي الله عنه، أن مكاتبا جاءه فقال: إني قد عجزت عن مكاتبتي فأعني، قال: ألا أعلمك كلمات علمنيهن رسول الله صلى الله عليه و سلم؟ لو كان عليك مثل جبل صير دينا أداه الله عنك، قال: قل: اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، و أغنني بفضلك عمن سواك.‘‘

’’ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مکاتب (غلام) آیا اور کہا : میں اپنا بدلِ کتابت ادا کرنے سے عاجز آگیا ہوں آپ میری مدد فرمائیے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ کلمات نہ سکھلاؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے سکھلائے تھے؟ اگر تمہارے اوپر ایک بڑے پہاڑ کے برابر بھی دین (قرض) ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے تمہاری طرف سے ادا فرمادیں گے،  آپ نے فرمایا: یہ پڑھا کرو:

’’اَللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَنْ مَّنْ سِوَاكَ‘‘.

"معارف القرآن" میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ سورۂ بنی اسرائیل کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: ایک روز میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باہر نکلا اس طرح کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا، آپ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو بہت شکستہ حال اور پریشان تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ تمہارا یہ حال کیسے ہوگیا؟ اس شخص نے عرض کیا کہ بیماری اور تنگ دستی نے یہ حال کردیا،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں چند کلمات بتلاتا ہوں وہ پڑھو گے تو تمہاری بیماری اور تنگ دستی جاتی رہے گی وہ کلمات یہ تھے:

" تَوَكَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ الْذِيْ لَایَمُوْتُ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّهُ شَرِیْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ یَکُنْ لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَکْبِيْرًا."

اس کے کچھ عرصہ بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف تشریف لے گئے تو اس کو اچھے حال میں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار فرمایا، اس نے عرض کیا کہ جب سے آپ نے مجھے یہ کلمات بتلائے تھے، میں پابندی سے ان کو پڑھتا ہوں۔ (ابویعلی و ابن سنی از مظہری)"

یہ چند مثالیں ہیں ان دعاؤں/ اذکار و وظائف کی جو خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں۔ 

مولانا صاحب کا مقصد اگر یہ ہے کہ سنت عمل کو دوسرے قسم کے وظائف پر ترجیح حاصل ہے، لہذا ضرورت پیش آنے پر صرف وظائف پڑھنے کے بجائے سنت عمل کو ترجیح دینی چاہیے تو ان کی بات درست ہے، کیوں کہ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں انبیاءِ کرام علیہم السلام کی آزمائشوں اور سخت ترین احوال کا ذکر موجود ہے، لیکن اس موقع پر انہوں نے ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں وظیفوں کے ختم نہیں کیے، بلکہ صبر و استقامت کا پیکرِ مجسم بنے رہے اور اللہ تعالیٰ سے دل کی گہرائی سے دعا کرتے رہے، قرآنِ مجید میں ان کی دعائیں منقول ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ بھی اس کی واضح مثال ہے کہ آپ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مختلف وظائف کی کثرت کے بجائے اللہ کی طرف رجوع اور دعا وغیرہ کی تلقین فرمائی ہے، گو بہت سے اذکار صبح و شام یا مختلف مواقع پر کثرت کے ساتھ یا مخصوص تعداد میں پڑھنے کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے۔

بہرحال ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ امام صاحب کا مقصد وظائف کے ثبوت یا جواز یا ان کی تاثیر کا کلی انکار نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144201201443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں