بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وزیرِ اعظم ہاؤسنگ اسکیم کے لیے اسلامی بنک سے قرض لے نے کا حکم


سوال

کیا ہم وزیرِ اعظم ہاؤسنگ اسکیم کے تحت اسلامی بنک سے قرض لے سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  اسلامی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی  تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا    موجودہ اسلامی بینکوں سے house loan (گھر خریدنے کے لیے قرضہ) لینا شرعاً جائز نہیں ہے،اس لیے کہ مروجہ اسلامی بینک  ذاتی گھر خریدنے کے خواہش مند افراد کے  ساتھ شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کرتے ہیں،کیوں کہ  ہوم لون  ان کی اصطلاح میں "شرکتِ متناقصہ"(diminishing musharka)کے تحت  جاری ہوتا ہے اور اس معاملے میں بہت سے شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً ایک ہی معاملے میں  كئی عقود (بیع، شرکت اور اجارہ) کو جمع کرنا اور عملاً ایک دوسرے کے لیے شرط قرار دینا وغیرہ، یعنی کسی بھی  اسلامی بینک کے ساتھ شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کرنے کی صورت میں حقیقتًا یا حکمًا دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں ،ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد حقیقتاً یا حکمًا ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں، جب کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عقد کی تکمیل سے پہلے اس عقد میں دوسرا عقد  داخل کرنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایک عقد کے لیے دوسرے عقد کو شرط قرار دینا بھی شرعًا ممنوع ہے ، اس  لیے  یہ طریقہ بھی  شرعی اصولوں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ناجائز   اور سودی قرضہ کا ایک ناجائز متبادل ہے۔

تفصیلی معلومات کے لیے  ہماری کتاب ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔  خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح سودی قرضہ لے کر ذاتی گھر خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی اسلامی بینک کے ساتھ  شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کر کے ذاتی گھر لینا بھی جائز نہیں ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"و على أن النهي عن أكل مال الغير معقود بصفة و هو أن يأكله بالباطل، و قد تضمن ذلك أكل أبدال العقود الفاسدة كأثمان البياعات الفاسدة."

(باب التجارات وخیار البیع، ج:3، ص:128، ط.دار إحياء التراث العربي - بيروت، تاريخ الطبع: 1405)

الصحیح لمسلممیں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا،و مؤكله، و كاتبه، و شاهديه، و قال: هم سواء."

(کتاب المساقات، باب الربوا، ج:3، ص:38، ط: رحمانیه)

   مشكاة المصابيح  میں ہے:

"و عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ینکح الرجل أمه."

( باب الربوا، ج:1، ص:246، ط: قدیمی)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة». و في الباب عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود: «حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح»، والعمل على هذا عند أهل العلم، و قد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، و بنسيئة بعشرين، و لايفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما ... و هذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، و لايدري كل واحد منهما على ما وقعت عليه صفقته ..."

(سنن الترمذي  لمحمد بن عيسى بن سَوْرة الترمذي، أبواب البيوع، باب ماجاء في النهي عن بیعتین في بیعة، ج:1،ص:364، رقم: 1193، ط: رحمانيه)

"إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعى يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه ألا ! و إن لكل ملك حمى ألا وإن حمى الله محارمه."

(أخرجه مسلم في باب أخذ الحلال وترك الشبهات، ج:2، ص:38، برقم:4094، ط: رحمانیه)

ترجمہ: "بے شک حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیز کیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک ومحفوظ کر لیا ، اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا، اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے، قریب ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چرا گاہ میں گھس کر چرنے لگیں، جان لو ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ حرام چیزوں ہیں"۔

عمدۃ القاری ميں ہے:

"وقال الخطابي: كل شيء يشبه الحلال من وجه والحرام من وجه هو شبهة والحلال اليقين ما علم ملكه يقينا لنفسه والحرام البين ما علم ملكه لغيره يقينا والشبهة ما لايدري أهو له أو لغيره فالورع اجتنابه ثم الورع على أقسام واجب كالذي قلناه ومستحب كاجتناب معاملة من أكثر ماله حرام ومكروه كالاجتناب عن قبول رخص الله والهدايا."

(كتاب البیوع ،باب تفسير المشبهات، ج:11، ص:236، ط. دارالكتب العلمية، الطبعة الأولى: 1421ه)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو هدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا". 

( کتاب الحوالة، باب کل قرض جرّ منفعة، ج:14، ص:513، ط: إدارۃ القرآن)

و في المبسو ط للسرخسي:

"وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد ... الخ"

(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدة، ج:۱۳، ص:۸، ط:دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307100429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں