بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

واضع الحدیث، کذاب اور مختلط راوی کی حدیث کا حکم


سوال

اگر راوی واضع الحدیث اور کذاب ہوتو  کیا اس کی حدیث ضعیف ہوگی یا موضوع؟ اگر ضعیف ہوتو وجہ کیا ہوگی؟ مختلط راوی کی روایت کا حکم کیا ہوتا ہے؟

جواب

۱- اگرچہ حدیث کے موضوع ہونے کی علامات میں سے ایک علامت راوی  کاواضع الحدیث اور کذاب ہونا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں  کہ جس سند میں بھی  کوئی واضع الحدیث یا کذاب راوی ہو،و ہ حدیث موضوع ہو گی، چنانچہ حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی(806ھ) فرماتے ہیں:

"فلا يلزم من وجود كذاب في السند أن يكون الحديث موضوعا؛ إذ مطلق كذب الراوي لا يدل على الوضع".

(شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي ،"الموضوع"، 1: 307، دار الكتب العلمية، ط: الأولى، 1423ھ)

بلکہ ایسے موقع پر دیگر قرائن کو دیکھا جائے گا، اگر اس پر وضع کے قرائن ظاہر ہوں ، جیسے: وہ روایت ، قرآن کریم ، سنت متواترہ، اصول دین، یا عقل کے مخالف ہو، یا ایسے راوی سے نقل کر رہا ہو، جو اس کی پیدائش سے قبل ہی وفات پا چکاہو،وغیرہ تو اس پر وضع کا حکم لگایا جائے گا،یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی(748ھ) نے موضوع کی تعریف یوں کی ہے:

"ما كان متنه مخالفا للقواعد، وراويه كذابا"

یعنی جس کا متن، قواعد ِ دین کے خلاف ہو، اور اس کا راوی کذاب ہو۔

(الموقظة في علم مصطلح الحديث  للذهبي، "الموضوع"، ص: 36، مكتبةالمطبوعات الإسلامية، ط: الثانىه 1412ھ)

یعنی مطلقا  ہرراوی کے جھوٹے ہونے سے روایت ، موضوع نہیں کہلائے گی۔

۲-  مختلط: وہ راوی ہوتا ہے  جس کا حافظہ  کسی حادثہ کی وجہ سے متاثر ہوگیا ہو، جیسے بڑھاپے،یا نابینا ہونے  کی وجہ سے، یا وہ  شخص  کتابوں سے روایت بیان کرتا ہو، اور اس کا وہ علمی سرمایہ کسی طرح ضائع ہو جائے۔ اس طرح كے راوی کا اصولی  حکم یہ ہے کہ  جو  روایات اس اختلاط کے حادثہ سے پہلے کی ہیں، وہ قابل قبول ہوں گی، اور جوروایات اس حادثہ کے بعد کی ہوں، یا ان کے متعلق حتمی طور پر معلو م نہ ہو سکے کہ  اختلاط سے پہلے کی ہیں یا بعد کی، تو انہیں بیان کرنے   سے توقف کیا   جائے گا، جب تک کسی دوسری سند سے ان کی تائید نہ ہو جائے۔اور اس اختلاط کی پہچان   اس راوی سے روایت کرنے والوں کو دیکھ کر کی جائے گی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی (852ھ) فرماتے ہیں:

 إن كان سوء الحفظ طارئا على الراوي؛ إما لكبره، أو لذهاب بصره، أو لاحتراق كتبه أو عدمها، بأن كان يعتمدها فرجع إلى حفظه فساء فهذا هو المختلط.

والحكم فيه: أن ما حدث به قبل الاختلاط إذا تميز قبل، وإذا لم يتميز توقف فيه، وكذا من اشتبه الأمر فيه، وإنما يعرف ذلك باعتبار الآخذين عنه.

(نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر لابن حجر، (ت: الرحيلي)، ص: 125، مكتبة البشرى، 1332ه) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں